Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi



75 Years of Pakistan Film History

Films in different languages

Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on Pakistani films, which were made in different languages.

پاکستان کی فلمی زبانیں

ابجد

21 فروری کو دنیا بھر میں "مادری زبان کا عالمی دن" منایا جاتا ہے۔ اتفاق سے اسی مہینے یعنی 25 فروری 1948ء کو اردو کو پاکستان کی اکلوتی قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔۔!

اسی مناسبت سے آج کی نشست میں گزشتہ 75 برسوں میں پاکستان میں مختلف زبانوں اور بولیوں میں بننے والی فلموں پر بات ہوگی۔

پاکستان ، ایک کثیراللسانی ملک ہے جس میں 70 کے قریب چھوٹی بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے 10 مختلف زبانوں اور بولیوں میں فلمیں بنائی گئیں جن میں سے اردو ، بنگالی ، سندھی ، پشتو ، بلوچی ، گجراتی ، انگلش اور پنجابی کے علاوہ پنجابی زبان کی 2 بولیوں ، لہجوں یا dialects یعنی "سرائیکی" اور "ہندکو" میں بھی فلمیں بنائی گئی ہیں۔

مختلف زبانوں/بولیوں کی پہلی پہلی فلم

پاکستان میں مختلف زبانوں اور بولیوں میں کون کون سی فلمیں کب بنیں ، ان کی ایک فہرست مندرجہ ذیل ہے:

مندرجہ بالا فہرست میں سے اردو ، پنجابی ، سرائیکی اور ہندکو فلمیں لاہور میں بنائی گئیں جبکہ بنگالی فلم ڈھاکہ ، سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بنی۔ باقی فلمیں ، سندھی ، پشتو ، بلوچی ، گجراتی اور انگلش فلمیں کراچی میں پایہ تکمیل تک پہنچیں۔ ان میں سے پہلی بلوچی فلم 1976ء میں بن گئی تھی لیکن بلوچیوں کے مبینہ احتجاج کے باعث عرصہ دراز بعد 2017ء میں جاکر ریلیز ہوئی تھی۔

اردو زبان کی تاریخ

پاکستان کی قومی زبان ، اردو ، ہندی زبان کا "اسلامی ورژن" ہے۔ 13ویں صدی میں جب لاہور کی غوری سلطنت کے ایک جنرل قطب الدین ایبک نے پہلی بار ہندوستان فتح کیا اور "دہلی سلطنت" کی بنیاد رکھی تو برصغیر کے ہندی بولنے والے شمال وسطی علاقوں کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے۔ دیسی اور بدیسی افراد کے میل جول سے مقامی زبانوں میں اسلامی اور عربی الفاظ کے علاوہ مسلمان حکمرانوں کی فارسی زبان کی آمیزش سے رعایا کے لیے ایک نئی رابطہ زبان وجود میں آئی جو پہلے "ہندوستانی" کہلائی پھر کئی صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد "اردو" کے نام سے مشہور ہوئی۔

13ویں صدی کے شاعر اور ماہر موسیقی ، امیر خسرو کو اردو کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے۔ ابتدائی کئی صدیاں صرف شاعری کے نام رہیں۔ اردو شاعری کا پہلا دیوان 16ویں صدی میں ملتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اردو حروف تہجی کا باقاعدہ استعمال کب شروع ہوا البتہ لفظ "اردو" پہلی بار 1780ء میں ایک شاعر غلام ہمدانی مشفی نے استعمال کیا تھا۔

19ویں صدی میں اردو زبان کے ضمن میں نمایاں واقعات رونما ہوئے۔ کلکتہ کے ایک فارسی ہفت روزہ اخبار "جام جہاں نما" نے 1822ء میں پہلی بار اردو کا خصوصی ضمیمہ شائع کرنا شروع کیا جبکہ پہلا باقاعدہ روزانہ اردو اخبار 1858ء میں کلکتہ کے علاوہ "روزنامہ پنجاب" کے نام سے لاہور سے شائع ہوا۔ اردو کا پہلا سٹیج ڈرامہ "اندرسبھا" 1853ء میں آغا حسن امانت نے والی اودھ واجد علی شاہ کی فرمائش پر لکھا۔ پہلا اردو ناول 1869ء میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی سے منسوب ہے جبکہ پہلا افسانہ منشی پریم چند نے 1907ء میں لکھا تھا۔

اردو فلموں کی تاریخ

پاکستانی نقطہ نظر سے برصغیر کی پہلی بولتی ، ٹاکی یا متکلم فلم عالم آرا (1931) ایک اردو فلم تھی جو بمبئی میں بنی جہاں تعصب اور تنگ نظری ، دین و دھرم کا حصہ رہی ہے۔ اردو زبان نے فارسی زبان کی جگہ لی تھی ، اس لیے اسے ہندی زبان پر برتری حاصل تھی لیکن چونکہ مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی رہی ہے ، اسی لیے پڑوسی ملک کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل رہا ہے کہ ان کی فلمیں اور فلمی گیت اصل میں اردو زبان میں ہوتے تھے۔

بھارتی نقظہ نظر سے تمام بھارتی فلمیں ، ہندی فلموں میں شمار کی جاتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ انھیں "ہندوستانی زبان" کی فلمیں کہہ دیا جاتا ہے۔ اردو فلمیں صرف وہ فلمیں شمار کی جاتی ہیں کہ جن میں مسلمان مرکزی کرداروں میں ہوں اور فارسی اور عربی زدہ زبان بولی جائے۔ یہ اور بات ہے کہ ہندی زبان 600 سالہ فارسی زبان کے اثرات سے ابھی تک نہیں نکل سکی اور اسے ہندوؤں کی مقدس زبان سنسکرت کا لبادہ پہناتے ہوئے "ہندوستانی زبان" یا اردو زبان کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی پہلی اردو فلم

قیام پاکستان کے بعد پہلی فلم تیری یاد (1948) بنائی گئی جو اردو زبان میں تھی۔ لاہور میں تقسیم سے قبل بھی زیادہ تر ہندی/اردو فلمیں ہی بنائی جاتی تھیں جو اصل میں ہندوستان کے وسیع فلمی سرکٹ کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی تھیں۔ تقسیم کے بعد بھی 1965ء میں بھارتی فلموں کی پاکستان میں بندش تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

قیام پاکستان تک اردو ، موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے کسی علاقے کی زبان نہیں تھی حالانکہ 1837ء میں انگریزوں نے سرکاری زبان کے طور پر فارسی کی جگہ اردو کو شمالی ہندوستان میں رائج کر دیا تھا۔

ستمبر 1947ء میں حکومت پاکستان نے ہندوستان سے 40 ہزار سے زائد اردو بولنے والے "سرکاری ملازمین" کو مع اہل و عیال خصوصی چارٹرڈ طیاروں پر VIP انداز میں امپورٹ کیا اور انھیں سرکاری خرچ پر تمام تر بنیادی سہولیات اور مراعات سے مستفید کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی بہتر مستقبل کی تلاش میں ان کے عزیز و اقارب اور دیگر لوگ اتنی بڑی تعداد میں پاکستان آنا شروع ہوئے کہ اس وقت کا دارالحکومت کراچی ، پاکستان کا واحد شہر یا علاقہ بن گیا جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہوگئی تھی۔ کراچی کو عام طور پر "منی پاکستان" کہا جاتا ہے لیکن بھارتی مسلمان ، کراچی کو "منی ہندوستان" کہتے ہیں۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان بھر میں اردو بولنے والوں کی کل تعداد 7 فیصد ہے جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے گزشتہ پون صدی میں اپنی مادری زبانیں ترک کر کے اردو کو اپنایا ہے۔

اردو فلموں کا عروج و زوال

پاکستان کی ابتدائی دو دھائیوں میں زیادہ تر اردو فلمیں بنتی تھیں۔ یہ فلمیں بھارت کے ساتھ تجارت کے علاوہ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں چلتی تھیں جہاں سینما گھر موجود ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ سینماؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی سینما گھر کھلنے لگے تو اردو فلموں کی اجارہ داری بھی ختم ہونا شروع ہوئی اور مقامی زبانوں کی فلموں کو عروج حاصل ہوا۔

جہاں 1950/60 اور 2010 کی دھائیاں اردو فلموں کی اجارہ داری کا دور تھا وہاں 1970 سے 2000 تک کی دھائیوں میں پنجابی فلموں کی اجارہ داری قائم رہی۔ اس دوران پشتو فلموں نے بھی بڑا عروج دیکھا جبکہ 1960 کی دھائی میں متحدہ پاکستان میں بڑی تعداد میں بنگالی فلمیں بھی بنائی گئیں۔

پنجابی زبان اور فلموں کی تاریخ

برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) اور پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) تھیں جو لاہور میں بنیں۔ بھارت کی پہلی پنجابی فلم چمن (1948) تھی۔ یہ فلم بھی تقسیم سے قبل لاہور ہی میں بن رہی تھی لیکن فسادات کی وجہ سے ممبئی میں مکمل ہو کر پہلی بھارتی پنجابی کے طور پر ریلیز ہوئی تھی۔

یہ سبھی پنجابی فلمیں اور ان کے گیت ، پنجابی زبان کی "ماجھی" بولی ، لہجے یا dialect میں بنائی گئیں جو ہمیشہ سے سٹینڈرڈ یا معیاری پنجابی زبان رہی ہے۔ دریائے جہلم سے دریائے بیاس تک کے پنجاب کے وسطی علاقوں میں اکثریتی آبادی کا یہ لہجہ یا بولی رہی ہے جس کا صدرمقام لاہور رہا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں ، ڈراموں اور پروگراموں کے علاوہ پنجاب کے لوک گیت ، فلمیں ، فلمی گیت اور بیشتر ادب بھی پنجابی زبان کی "ماجھی" بولی ہی میں تخلیق ہوا ہے۔

1970ء کی دھائی تک بھارتی پنجابی فلمیں بھی "ماجھی" لہجے میں بنتی تھیں لیکن بعد میں وہاں "مالوی" لہجہ حاوی ہوگیا جو بھارتی پنجاب کا اکثریتی علاقہ ہے۔ اصل میں سکھوں کی پنجابی زبان ، اب ایک الگ dialect بن چکی ہے جس میں ہندی کی طرح سنسکرت الفاظ کی آمیزش اتنی زیادہ ہو رہی ہے کہ جلد ہی یہ ایک الگ زبان کا درجہ حاصل کر لے گی۔ یاد رہے کہ پنجاب پر سکھوں کے 90 سالہ دور حکومت میں بھی سرکاری زبان فارسی ہی ہوتی تھی جس کے پنجابی زبان پر بڑے گہرے اثرات تھے۔ 1849ء میں انگریزوں کی پنجاب کی فتح کے بعد اردو کو فارسی کی جگہ سرکاری زبان کا درجہ ملا تھا۔

پنجابی زبان کا ارتقائی عمل

پنجابی زبان کبھی پانچ ہزار سال قبل ہندآریائی زبانوں کے سلسلے میں ہندی زبان ہی کا حصہ تھی لیکن وقت کے ساتھ ہر زبان تبدیل ہوتی ہے ، ایسے میں پنجابی زبان میں بھی اتنی تبدیلیاں ہوئیں کہ وہ ہندی سے ایک الگ زبان بن گئی۔ موجودہ پنجابی زبان کی جو شکل ہے ، اس کی بنیاد 11ویں صدی میں سلطان محمود غزنوی کے لاہور پر قبضہ سے ہوئی جب پنجابی زبان پر فارسی کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور وہ ایک اسلامی رنگ میں ڈھلنے لگی۔

پنجابی زبان ، ایک وسیع و عریض علاقے میں بولی جاتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے 30 سے زائد مختلف لہجے ، انداز ، بولیاں یا dialects ہیں۔ "ماجھی" کے علاوہ "مالوی" بولی ، دریائے ستلج کے جنوبی علاقوں میں بولی جاتی ہے جہاں بھارتی پنجاب کا سب سے بڑا شہر لدھیانہ واقع ہے۔ دریائے ستلج اور بیاس کے درمیان علاقے کی بولی "دوآبی" کہلاتی ہے جس کا صدر مقام جالندھر ہے۔ پاکستان سے ملحق اضلاع میں "ماجھی" بولی جاتی ہے جبکہ پنجاب اور ہریانہ کے مشترکہ دارالحکومت چندی گڑھ کے علاقے میں پنجابی زبان کی "پوادھی" بولی بولی جاتی ہے جس میں ہندی/اردو کی ملاوٹ ہے۔ ان کے علاوہ پنجابی زبان کی متعدد بولیوں میں ہندی/اردو کی ملاوٹ ملتی ہے۔

کیا سرائیکی ایک الگ زبان ہے؟

پنجابی زبان کا دوسرا بڑا لہجہ "سرائیکی" ہے جس کو کچھ لوگ ایک الگ زبان بھی قرار دیتے ہیں جو کسی طور بھی درست نہیں۔ "ایک زبان" کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ اس کو بولنے والے بغیر کسی ترجمان کے سمجھ لیں تو وہ ایک ہی زبان شمار ہوگی چاہے اسے بولنے کے کتنے ہی انداز کیوں نہ ہوں۔ سرائیکی کے چاروں بڑے لہجے یا بولیاں یعنی "ملتانی" ، "ریاستی" ، "ڈیرہ والی" اور "تھلوچی" وغیرہ بڑی آسانی کے ساتھ ہر پنجابی بولنے والا سمجھ جاتا ہے ، اس لیے یہ کسی طور بھی الگ زبان نہیں ہے بلکہ صرف پنجابی زبان کی dialects ہیں۔

جنوب مغربی پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی زبان کی ایک بولی ، سرائیکی کی پہلی فلم دھیاں نمانیاں (1973) تھی جبکہ اب تک ایک درجن کے قریب فلمیں ، اس بولی میں بن چکی ہیں۔

پنجابی زبان کی وسعت

پنجابی زبان ، صوبہ پنجاب سے باہر بھی بولی جاتی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں سب سے زیادہ بولی جانے والی پنجابی بولی "ہندکو" میں اکلوتی فلم قصہ خوانی (1980) بنی تھی۔ "ہندکو" بھی پنجابی زبان کی شمالی بولیوں ، "پوٹھواری" ، "پہاڑی" ، "میرپوری" اور "گوجری" میں سے ایک ہے۔ یاد رہے کہ آزاد کشمیر کی 87 فیصد آبادی ، پنجابی زبان کی یہی بولیاں بولتی ہے جبکہ وہاں کشمیری زبان بولنے والوں کی تعداد صرف 5 فیصد ہے۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر میں واقع ہندو اکثریتی علاقہ جموں کی 77 فیصد آبادی بھی پنجابی زبان کی دو بولیاں "ماجھی" اور "ڈوگری" بولتی ہے۔ ان کے علاوہ "شاہ پوری" اور "جانگلی یا جھنگوی" وغیرہ بھی پنجابی زبان کو مختلف انداز میں بولنے کے چند لہجے ہیں۔ لاہور ، سیالکوٹ ، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے مقامی لہجے بھی صاف پہچانے جاتے ہیں۔

1981ء کی مردم شماری میں پہلی بار سرائیکی اور ہندکو dialects کو پنجابی زبان سے الگ شمار کیا گیا۔ 2017ء کے اعدادوشمار کے مطابق پنجابی زبان صرف 38 فیصد ، سرائیکی 12 فیصد اور ہندکو 2 فیصد پاکستانیوں کی زبان تھی۔

سندھی زبان کی فلمیں

سندھی زبان ، برصغیر کی پہلی زبان ہے جس پر اسلامی اثرات 8ویں صدی میں پڑنا شروع ہوئے جب محمدبن قاسم نے سندھ کو فتح کر کے اموی سلطنت کا حصہ بنا دیا تھا۔ سندھی زبان کے مختلف لہجوں میں سے لاڑی لہجہ ، سٹینڈرڈ سندھی ہے جو میڈیا اور فلموں میں استعمال ہوتا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق سندھی زبان ، پاکستان کی 15 فیصد آبادی کی مادری زبان ہے۔

پاکستان میں ریلیز کے اعتبار سے اردو اور پنجابی فلموں کے بعد فلم عمرماروی (1956) بنی جو پہلی سندھی تھی۔ برصغیر کی پہلی سندھی فلم ایکتا (1940) تھی جبکہ پہلی بھارتی سندھی فلم بھگت کنور رام (1951) تھی۔

بنگالی زبان کی فلمیں

بنگالی زبان ، ہندوستان میں ہندی/اردو کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو اب بنگلہ دیش اور بھارتی ریاست بنگال کی سرکاری زبان ہے۔ پاکستان میں آج بھی کراچی میں کئی لاکھ بنگالی رہتے ہیں۔

برصغیر کے مسلمانوں کے اکثریتی علاقے کی زبان ہونے کے باوجود بنگالی زبان نے عربی ، فارسی یا اردو کے اثرات قبول نہیں کیے اور اپنا رسم الخط تک الگ رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے زبان کا تنازعہ سامنے آیا پھر سیاسی ، سماجی اور معاشی محرومیاں 1971ء میں علیحدگی کا باعث بنیں۔ زبان ہی کے مسئلہ پر 21 فروری 1952ء کو ڈھاکہ میں مارے جانے طلبہ کی یاد میں 1999ء سے دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

پاکستان کی پہلی بنگالی فلم مکھ و مکھوش (1956) تھی۔ 1971ء میں علیحدگی تک ڈیڑھ سو سے زائد بنگالی فلمیں ، پاکستانی فلموں کے طور پر رجسٹر ہوئیں۔ مشرقی پاکستان میں بنائی جانے والی ساٹھ کے قریب اردو فلمیں بھی اصل میں بنگالی فلمیں ہی ہوتی تھیں جنھیں اردو میں ڈب کر کے مغربی پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔ برصغیر کی پہلی بنگالی فلم دینا پاؤنا (1931) تھی۔ بھارتی بنگال کے صدر مقام کلکتہ اور بنگلہ دیش میں بھی بڑی تعداد میں سالانہ بنگالی فلمیں بنتی ہیں۔

پشتو زبان کی فلمیں

پاکستان ایک ایسے جغرافیائی خطہ میں واقع ہے جو زمین کی دو الگ الگ پرتوں یعنی ایشیاء اور ہند پر واقع ہے۔ دریائے سندھ اور کوہ سلیمان کے دائیں طرف ہندآریائی زبانیں اور بائیں طرف ایرانی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں پشتو ، فارسی کے بعد دوسری بڑی زبان ہے۔ یہ زبان ، افغانستان کی 60 فیصد جبکہ پاکستان میں 15 فیصد آبادی کی زبان ہے۔ پاکستان میں پشتو خیبرپختونخواہ کے علاوہ بلوچستان کے شمالی علاقوں اور کراچی میں بڑی تعداد میں بولی جاتی ہے۔

برصغیر کی پہلی پشتو فلم لیلیٰ مجنوں (1941) تھی جبکہ پاکستان کی پہلی پشتو فلم یوسف خان شیربانو (1970) تھی۔

دیگر زبانوں کی فلمیں

پاکستان میں اردو ، پنجابی ، بنگالی ، سندھی اور پشتو کے بعد ایک اور صوبائی زبان بلوچی میں پہلی فلم 1976ء میں ہمل و ماگنج بنائی گئی لیکن بلوچیوں کے احتجاج پر 2017ء سے پہلے ریلیز نہ ہو سکی۔

بلوچی زبان بھی فارسی زبانوں کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے اور پاکستان میں صرف 2 فیصد آبادی کی مادری زبان ہے۔ بلوچستان ہی کی ایک اہم زبان بروہی بھی ہے جو پاکستان کی دیگر سبھی زبانوں سے الگ تھلگ جنوبی ہند کی دراوڑی زبانوں کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ محدود آبادی کی وجہ سے اس زبان میں کبھی کوئی فلم نہیں بنی اور نہ ہی شمالی پاکستان کی مختلف زبانوں میں کوئی فلم بنی ہے۔

پاکستان کی قومی اور صوبائی زبانوں کے بعد کراچی کی میمن کمیونٹی کے لیے گجراتی زبان میں دو فلمیں بنیں جن میں پہلی فلم ماں تے ماں (1970) تھی۔ گجراتی زبان بھی ہند آریائی زبانوں میں سے ایک ہے اور ہندوستان کی ایک مغربی ریاست گجرات کے علاوہ پاکستان میں صرف کراچی میں بولی جاتی ہے۔

پاکستان میں 1976ء میں پہلی بین الاقوامی میعار کی ایک انگریزی فلم بنائی گئی جو ایک سینٹر جاوید جبار کی ایک اچھی کوشش تھی۔ Beyond The Last Mountain نامی فلم کا اردو ورژن "مسافر" کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا۔

پاکستانی فلموں میں مختلف زبانوں/بولیوں کا ٹچ

پاکستان کی قومی زبان ، اردو ، ایک کتابی زبان ہے لیکن ہندی/اردو یا "ہندوستانی" زبان کے 48 تسلیم شدہ عوامی لہجے ، بولیاں یا dialects ہیں جو بھارت اور پاکستان میں بولے جاتے ہیں۔ میڈیا کی سرکاری اور روزمرہ کی "عوامی زبان" قدرے مختلف رہی ہیں جن میں "ابے" ، "اپن" ، "میرے/تیرے کو بولا ہے" وغیرہ کے علاوہ ایک جملہ بڑا مشہور رہا ہے: "ابے منے کے ابا ، سام کو پان لیتے آئیو ، پھر نہ کہیو کہ خسک تھی۔۔"

پاکستانی اردو فلموں کی زبان تو ایک ہی رہی لیکن ان میں سے بعض فلموں میں مختلف لہجوں میں مکالمے سننے کو ملتے ہیں جن میں کچھ خاص خاص درج ذیل ہیں:

  • فلم ثریا بھوپالی (1976) میں رانی کی "باتاں ، راتاں اور ملاقاتاں" وغیرہ کون بھلا سکتا ہے۔ ندیم کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم نادان (1973) اور محمدعلی کی فلم آئینہ اور صورت (1974) اور نشیمن (1976) میں عام روش سے ہٹ کر عوامی انداز کے مکالمے سننے کو ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی ایک ایکسٹرا اور ولن اداکار بھی مختلف لہجوں میں ڈائیلاگ بولتے دکھائی دیتے ہیں۔
  • میری یادداشت کے مطابق کسی اردو فلم میں کبھی کوئی مرکزی کردار بنگالی ، پشتو ، سندھی یا بلوچی زبانیں بولنے والا نہیں دیکھایا گیا البتہ فلم کالو (1977) میں محمدعلی نے ایک مکرانی کا رول کیا تھا۔
  • فلم جلوہ (1966) ، لکھنو کے ماحول میں بنائی گئی ایک رومانٹک نغماتی اردو فلم تھی۔ اس فلم میں اعجاز کا کردار ایک دیہاتی زمیندار کا تھا جو پوری فلم میں ٹھیٹھ پنجابی بولتا ہے۔ اسی فلم سے پہلی بار علم ہوا تھا کہ پنجابی زبان کے بہت سے الفاظ اردو حروف تہجی میں نہیں لکھے جا سکتے اور نہ ہی اردو بولنے والے ان کا صحیح تلفظ ادا کر سکتے ہیں جیسے کہ گھوڑا ، گندم اور پیٹ وغیرہ۔
  • فلم یاردوست (1968) ایک پنجابی/اردو فلم تھی جس میں اکمل نے "یار" کا پنجابی جبکہ لہری نے "دوست" کا اردو ٹائٹل رول کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہدایتکار ایس سلیمان کی اس فلم میں محمدعلی نے سیکنڈ ہیرو کا رول کیا تھا جن کی جوڑی فردوس کے ساتھ ہوتی ہے جو اکمل کی بہن ہوتی ہے جبکہ نغمہ ، اکمل کی ہیروئن ہوتی ہے۔
  • فلم دل اور دنیا (1971) میں سلطان راہی کے "ہندکو" میں بولے گئے مکالمے بڑے مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر ان کا یہ جملہ تو زبان زدعام ہوا تھا "پیرو جھلی نے پتر۔۔"
  • فلم بھائی بھائی (1971) بھی ایک ایسی ہی فلم تھی جس میں یوسف خان ، پنجابی بولتے ہیں لیکن کمال ، اردو بولتے ہیں۔ فلم ٹھاہ (1972) میں افضال احمد اور فلم مولا جٹ (1979) میں آسیہ کے جانگلی مکالمے بڑے دلچسپ تھے۔ اداکار ساقی خاص طور پر پشتو انداز کے اردو مکالمے بولنے میں ماہر تھے۔
  • ان کے علاوہ بہت سی فلموں میں مزاحیہ اداکار اردو اور پنجابی مکالمے بولتے رہے ہیں۔ فلم زمیندار (1966) میں خلیفہ نذیر اور فلم انسانیت (1967) میں علی اعجاز کے اردو پنجابی مکسچرز مکالمے بڑے دلچسپ تھے۔ فلم واردات (1976) میں منورظریف ، نیلو کو پنجابی سکھاتے ہیں تو لہری ، سدھیر کو اردو سکھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ فلم دبئی چلو (1979) میں ملک انوکھا نے متعدد زبانیں بول کر میلہ لوٹ لیا تھا۔ فلم سوہرا تے جوائی (1981) میں ننھا کی بیوی تمنا ، اردو سپیکنگ ہوتی ہے جس کو ننھا بعض اوقات "اردو کی چوتھی کتاب" کہہ کر چھیڑتا ہے۔ فلم سسرال (1977) تو اردو مکالموں اور پنجابی گیتوں کے ساتھ ایک دلچسپ مزاحیہ فلم تھی۔

پاکستانی فلمی گیتوں میں مختلف زبانوں/بولیوں کا ٹچ

بہت سی پاکستانی فلموں میں مختلف زبانوں کے گیت اور جملے شامل کیے گئے ہیں جن میں اردو فلموں میں پنجابی اور پنجابی فلموں میں اردو گیتوں اور جملوں کی ایک بڑی تعداد ملتی ہے لیکن ایک اردو فلم فرنگی (1964) کے اس یادگار گیت میں ایک پشتو جملہ شاید ہماری فلمی تاریخ کا سب سے مقبول ترین جملہ تھا:

  • بن کے میرا پروانہ ، آئے گا اکبر خاناں ، کہہ دوں گی دلبر جاناں ، پہ خیر راغلے۔۔

قتیل شفائی کے لکھے ہوئے اس شاہکار گیت کی دھن رشید عطرے نے بنائی تھی اور مالا کی آواز میں اس گیت نے ہر خاص و عام کو سمجھا دیا تھا کہ پشتو زبان میں "خوش آمدید" کہنا ہو تو کیسے "پہ خیر راغلے" کہتے ہیں۔ کاش ، اس طرح کے مزید گیت ہوتے جو قومی یکجہتی اور علاقائی زبانوں کو فروغ دیتے اور تعصب اور تنگ نظری کا قلع قمع ہوتا۔

بدقسمتی سے آزادی کی پون صدی کے بعد ہم اپنے حریف بھارت سے ہر قدم پر مات کھا چکے ہیں۔ بھارت میں کوئی قومی زبان نہیں بلکہ ہندی اور انگریزی سرکاری زبانیں ہیں جب کہ کل 22 زبانوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر صوبے یا ریاست کی اپنی اپنی زبان ہے اور اردو ، پنجابی ، سندھی اور کشمیری زبانوں کو بھی سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔

مجھے ، بیشتر بھارتی فلموں ، فنکاروں یا فلمی گیتوں سے کبھی دل چسپی نہیں رہی لیکن مندرجہ ذیل گیت سن کر بڑی شدت سے خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ یا اس جیسا کوئی پاکستانی گیت بھی ہوتا:

    انگریزی میں کہتے ہیں کہ "آئی لو یو۔۔"
    گجراتی ماں بولے "تنے پریم کروں چھو۔۔"
    بنگالی میں کہتے ہیں "آمی توما کے بھالو بھاشی۔۔"
    اور پنجابی میں کہتے ہیں "تیری سونہہ ، تیرے بن مر جاناں ، میں تینوں پیار کرناں ، تیرے جئی نئیں لبھنی ، او ساتھی ہو۔۔"


Poonji
Poonji
(1943)
Sulochna
Sulochna
(1933)
Panchhi
Panchhi
(1944)
Ek Roz
Ek Roz
(1947)
Pukar
Pukar
(1939)

Rattan
Rattan
(1944)
Sanyasi
Sanyasi
(1945)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.