Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


آغا جی اے گل

آغا جی اے گل ، پاکستان میں فلم انڈسٹری کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ تین درجن سے زائد فلمیں بنانے والے فلمساز ادارے 'ایورنیو پکچرز' کے علاوہ جدید ترین نگارخانے ، 'ایورنیو سٹوڈیو' کے مالک بھی تھے۔۔!

ایک فلم ، فلمساز کی ملکیت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس پر سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن بیشتر فلمساز ، فنکار یا تخلیق کار نہیں ہوتے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلمساز کے بغیر فنکار بھی کچھ نہیں کیونکہ اگر سرمایہ ہی نہ ہوگا تو فلم کیسے بنے گی اور فنکار کیسے اپنے فن کا مظاہرہ کر پائے گا۔۔؟

آغا جی اے گل بطور فلمساز

آغا جی اے گل نے کبھی کوئی فلم بطور ہدایتکار یا مصنف نہیں بنائی لیکن فلمساز کے طور پر دو درجن فلمیں بنانے کے باوجود انھیں عام طور پر ان کے فلم سٹوڈیو اور فلم کمپنی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔

ان کے فلمساز ادارے 'ایورنیو پکچرز' کی پہلی فلم منُدری (1949) تھی جو پاکستان میں بننے والی دوسری پنجابی فلم تھی۔ اس رومانٹک اور نغماتی فلم کے ہدایتکار داؤد چاند تھے جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے ہدایتکار بھی تھے۔

فلم کی کہانی ظاہرمرزا کی تھی جن کی معاونت مرزا سلطان بیگ نے کی تھی جو ریڈیو پاکستان لاہور کے دیہاتی پروگرام 'جمہور دی آواز' کے مقبول ترین کردار 'نظام دین' کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انھوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔

فلم کی ہیروئن راگنی تھی جبکہ الیاس کاشمیری پہلی اور آخری بار روایتی ہیرو کے طور پر نظر آئے تھے۔ زینت ، غلام محمد اور آغا سلیم رضا کے علاوہ تقسیم سے قبل کی فلموں کے چوٹی کے مزاحیہ اداکار نورمحمدچارلی نے اپنی پہلی پنجابی فلم میں کام کیا تھا۔

رتن سینما لاہور میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے اوسط درجہ کا بزنس کیا تھا۔

فلم منُدری (1949) میں تنویرنقوی ، ایف ڈی شرف اور بابا چشتی کے لکھے ہوئے گیت تھے۔ اب اگر موسیقار بابا چشتی ہوں اور کوئی گیت دل کی گہرائیوں میں نہ اتر جائے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟

  • چناں چن چاننی ، موسم اے بہار دا ، دل نال دل ملے ، سودا ہویا پیار دا۔۔
  • او چن ساڈا ساڈے نال ہس کے نئیں بولدا ، غصے غصے رہندا ، کنڈی دل دی نئیں کھولدا۔۔
  • پلا مار کے بجھا گئی دیوا تے اکھاں نال گل کر گئی۔۔

منور سلطانہ اور اقبال بانو کے ان دلکش گیتوں کے علاوہ نورمحمدچارلی نے بھی ایک مزاحیہ گیت گایا تھا

  • اکڑدکڑپمباپو ، میں تیرا تو میری ہو۔۔

آغا جی اے گل نے اپنی اگلی دونوں فلموں ، گمنام (1954) اور قاتل (1955) کے لیے سرمایہ کاری کی تھی جن کے ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ یہ اس دور کی شاہکار فلمیں تھیں۔

پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم

آغا جی اے گل کے لیے ان کی چوتھی فلم دُلابھٹی (1956) دھن دولت کی برسات لائی تھی۔ پاکستان کی یہ پہلی بلاک باسٹر فلم ، پنجابی زبان میں بنائی گئی تھی۔

پاکستان کے پہلے دو عشروں میں زیادہ تر اردو فلمیں بنتی تھیں جو اصل میں بھارتی فلمی سرکٹ کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی تھیں۔ بھارت کے ساتھ فلموں کی تجارت کا یہ سلسلہ 1965ء کی جنگ تک چلا تھا۔ پاکستان میں اردو فلموں کا سرکٹ چند بڑے شہروں تک محدود ہوتا تھا اور عام طور پر صرف مڈل کلاس اور پڑھے لکھے لوگ ہی اردو فلمیں دیکھتے تھے۔ ملک بھر کے ساٹھ فیصد سینما گھر صرف صوبہ پنجاب میں ہوتے تھے جہاں زیادہ تر پنجابی فلمیں ہی چلتی تھیں جو ایک عام آدمی کے لیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجابی فلمیں گھاٹے کا سودا نہیں ہوتی تھیں۔

فلم دُلابھٹی (1956) کے ہدایتکار ایم ایس ڈار تھے اور سپروائزر کے طور پر انور کمال پاشا کا نام ملتا ہے۔ پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر نے ٹائٹل رول کیا تھا اور ہیروئن صبیحہ خانم تھی۔ علاؤالدین کے علاوہ آشا پوسلے ، آصف جاہ اور شیخ اقبال کی کامیڈی بڑے کمال کی تھی جو فلم کی کامیابی کی بڑی وجہ بھی تھی۔

اس فلم کا سپرہٹ گیت "واسطہ ای رب دا تو جائیں وے کبوترا ، چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچائیں وے کبوترا۔۔" ایک میگاہٹ سانگ تھا جو بابا جی اے چشتی کی ایک اور شاہکار دھن تھی۔ طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے اس گیت کو منور سلطانہ نے گایا تھا اور صبیحہ خانم پر فلمایا گیا تھا۔

ایورنیو سٹوڈیوز کی تکمیل

پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دُلابھٹی (1956) نے ریکارڈ بزنس کیا تھا جس سے آغا جی اے گل کو ملتان روڈ لاہور پر پاکستان کا جدید ترین فلمی نگار خانہ 'ایورنیو سٹوڈیو' بنانے کا موقع مل گیا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا نیا فلم سٹوڈیو تھا جو اب تک چل رہا ہے۔ عروج کے سنہرے دور میں بہتر سہولتوں کی بدولت بیشتر فلموں کی شوٹنگ اسی سٹوڈیو میں ہوتی تھی۔ اس نگار خانے میں چھ شوٹنگ فلور ، ایک ڈبنگ ہال ، دو سینما ہال ، دو جدید ریکارڈنگ ہال ، کمپوٹرائزد کلر لیبارٹری اور پچاس سے زائد فلمی دفاتر ہوتے تھے۔

آغا جی اے گل نے اپنا فلم سٹوڈیو بنانے سے قبل 1954ء میں مسلم ٹاؤن کے علاقے میں ایک پرانا 'پنچولی سٹوڈیو نمبر 2' کرائے پر لیا ہوا تھا جسے 'ایورنیو سٹوڈیو' کا نام دیا گیا تھا۔

لاہور کے فلم سٹوڈیوز

فلم سٹوڈیوز کی بات چل نکلی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں نگار خانوں کی ایک مختصراً تاریخ بھی بیان کر دی جائے۔ تقسیم سے قبل بمبئی ، کلکتہ اور مدراس کے علاوہ لاہور میں بھی ہندی/اردو اور پنجابی فلمیں بنتی تھیں۔ لاہور میں کل آٹھ فلم سٹوڈیوز ہوتے تھے جن کے مالکان سبھی ہندو سیٹھ ہوتے تھے۔

تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات میں کوئی ایک بھی فلم سٹوڈیو اپنی اصلی حالت میں نہیں بچا تھا۔ ان میں سے 'پردھان سٹوڈیو' ، 'ناردرن سٹوڈیو' اور 'امپریل سٹوڈیو' مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئے تھے۔ ان کا بچا کھچا سامان ہندو مالکان اپنے ساتھ بھارت لے گئے تھے۔ ان کے علاوہ جو پانچ فلم سٹوڈیوز کسی نہ کسی حالت میں باقی بچے ، ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

  1. شوری (یا شاہ نور) فلم سٹوڈیوز

    1945ء میں ملتان روڈ لاہور پر قائم ہونے والا پہلا فلم سٹوڈیو ، اداکارہ مینا شوری کے ہندو شوہر فلمساز اور ہدایتکار روپ کے شوری نے اپنے نام پر بنوایا تھا جو سو کنال اراضی پر مشتمل تھا۔
    یہ فلم سٹوڈیو لاہور میں بننے والی ریکارڈ توڑ پنجابی فلم منگتی (1942) کی کمائی سے بنا تھا جو مسلسل ایک سال تک چلنے والی برصغیر کی پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم تھی۔ اس کی ہیروئن ممتاز شانتی تھی جس کی ہندی/اردو فلم قسمت (1943) برصغیر کی سو ہفتے سے زائد چلنے والی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی۔ فلم منگتی (1942) کے ہیرو ہمارے نامور ہدایتکار مسعود پرویز تھے۔
    یہ فلم سٹوڈیو 1947ء کے فسادات میں جلا دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد میڈم نورجہاں اور ان کے شوہر شوکت حسین رضوی کو لاہور میں الاٹ ہونے والے ریجنٹ سینما اور ایک کوٹھی کے علاوہ 'شوری سٹوڈیو' بھی تھا جس کا نام 'شاہ نور سٹوڈیو' رکھا گیا تھا۔ جائیداد کی تقسیم کے خاندانی جھگڑوں کے عمل سے گزرنے کے باوجود اس کا کچھ حصہ اب بھی چل رہا ہے۔
  2. پنچولی (یا ملکہ) فلم سٹوڈیوز 1

    اپر مال پر نہر کے کنارے واقع اس نگار خانے کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے جن کے کریڈٹ پر گل بکاؤلی (1939) ، یملاجٹ (1940) اور چوہدری (1941) جیسی بڑی بڑی پنجابی فلمیں تھیں اور جن کی کمائی سے یہ فلم سٹوڈیو بنا تھا۔
    قیام پاکستان کے بعد یہ نگار خانہ ، گلوکارہ ملکہ پکھراج کو الاٹ ہوا تھا جنھوں نے اس کا نام 'ملکہ سٹوڈیو' رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد اس کو کرایہ پر دیا جاتا تھا اور مالکان اور نام بدلتے رہے ، جیسے کہ ' کوآپریٹو سٹوڈیو' یا 'جاوداں سٹوڈیو' وغیرہ۔ یہ سٹوڈیو بند ہونے کے بعد اب ایک رہائشی علاقہ اپر مال سکیم کہلاتا ہے۔
  3. پنچولی (یا پنجاب آرٹ) فلم سٹوڈیوز 2

    1936ء میں مسلم ٹاؤن لاہور میں نہر کے کنارے تعمیر ہونے والا یہ فلم سٹوڈیو بھی سیٹھ دل سکھ پنچولی کی ملکیت تھا جو قیام پاکستان کے بعد دیوان سرداری لال کے پاس رہا جنھوں نے یہاں بطور فلمساز ، پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) بنائی تھی۔
    دیوان کے بھارت جانے کے بعد یہ فلم سٹوڈیو ، اداکار ، فلمساز اور ہدایتکار نذیر کو الاٹ ہوا تو اس کا نام 'پنجاب آرٹ سٹوڈیو' رکھا گیا تھا جہاں پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) بنائی گئی تھی۔
    1954ء میں آغا جی اے گل نے اس سٹوڈیو کو کرایہ پر حاصل کیا اور نام 'ایورنیو سٹوڈیو' رکھا۔ اسی سٹوڈیو میں بلاک باسٹر فلم دُلابھٹی (1956) بنائی جس کی کمائی سے ملتان روڈ پر جدید 'ایورنیو سٹوڈیو' قائم کیا۔
    پھر یہ سٹوڈیو باری ملک نے کرائے پر لیا اور یہاں یکے والی (1957) جیسی ایک اور بلاک باسٹر فلم بنائی۔ اس فلم کی کمائی سے انھوں نے بھی ملتان روڈ لاہور پر اپنا ذاتی 'باری سٹوڈیو' قائم کرلیا تھا۔
    اس کے بعد فلمساز اور ہدایتکار اشفاق ملک نے یہ نگارخانہ کرایہ پر لیا۔ انھوں نے بھی بندروڈ پر اپنی ذاتی اراضی خرید کر 'اے ایم سٹوڈیو' قائم کیا تھا جو 1990ء میں بند ہوا تھا۔
    'پنچولی سٹوڈیو 2' کو بعد میں 'بوبی سٹوڈیو' کا نام بھی دیا گیا تھا اور 1980ء میں مکمل طور پر بند ہوگیا تھا۔
  4. لیلا مندر فلم سٹوڈیوز

    فیروزپور روڈ پر واقع یہ فلم سٹوڈیو قیام پاکستان کے بعد 'سکرین اینڈ ساؤنڈ سٹوڈیو' کے نام سے سٹوڈیو اور لیبارٹری انچارج تصدق حسین ریاض اور شفیع اعجاز کو الاٹ ہوا تھا۔ اس فلم سٹوڈیو میں پہلی بار فلم گل بکاؤلی (1961) کے رنگین گانوں کی پروسیسنگ کی گئی تھی اور مغربی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم اک دل دو دیوانے (1964) بھی بنائی گئی تھی۔ 1985ء تک یہ فلم سٹوڈیو چلتا رہا تھا۔
  5. سٹی فلم سٹوڈیوز

    میکلورڈ روڈ لاہور پر واقع ریجنٹ سینما کے عقب میں 'سٹی سٹوڈیو' ، قیام پاکستان کے بعد بھی قائم رہا جسے رتن سینما کے مالک چوہدری عید محمد کو الاٹ کیا گیا تھا۔ یہ فلم سٹوڈیو 1980ء تک چلتا رہا تھا۔

پاکستان کے فلم سٹوڈیوز

قیام پاکستان کے بعد قائم ہونے والے فلمی نگارخانوں کی فہرست کچھ اس طرح سے تھی:

  • فلم دُلابھٹی (1956) کی کمائی سے ملتان روڈ پر آغا جی اے گل نے 'ایورنیو سٹوڈیو' قائم کیا تھا۔
  • فلمساز باری ملک نے فلم یکے والی (1957) کی کمائی سے ملتان روڈ لاہور پر 92 کنال اراضی پر مشتمل 'باری سٹوڈیو' قائم کیا تھا۔
  • شباب کیرانوی نے فلم مہتاب (1962) کی کمائی سے ملتان روڈ لاہور پر ہی واقع 'شباب سٹوڈیو' قائم کیا تھا۔
  • فلم وعدہ (1957) فیم فلمساز اور ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنے نام پر 'ڈبلیو زیڈ سٹوڈیو' وحدت روڈ لاہور پر بنایا تھا۔
  • 1971ء میں فلم بدنام (1966) فیم معروف فلمساز اور ہدایتکار اقبال شہزاد نے ملتان روڈ پر ہی 'سنے ٹل سٹوڈیو' قائم کیا تھا۔
  • 1973ء میں چوہدری ثنا اللہ نے ملتان روڈ پر ہی واقع 'ثنائی سٹوڈیو' قائم کیا تھا۔

لاہور کے ان نگار خانوں کے علاوہ کراچی میں بھی پانچ فلم سٹوڈیوز تھے جو 'ایسٹرن سٹوڈیو' ، 'ماڈرن سٹوڈیو' ، 'انٹرنیشنل سٹوڈیو' ، 'کراچی سٹوڈیو' اور 'نوویٹاس سنے لیبارٹری' کے نام سے ریکارڈز پر موجود ہیں۔

مقابلہ بازی کا رحجان

آغا جی اے گل ایک کامیاب بزنس مین تھے۔ انھیں یہ سہولت حاصل تھی کہ جس فلم پر سرمایہ کاری کرتے ، وہ ان کے اپنے فلم سٹوڈیو میں بنتی ، اس طرح اس کی پروڈکشن کاسٹ کم ہوتی۔ پھر فلم کی تقسیم کاری بھی اپنی فلم کمپنی 'ایورنیو پکچرز' کے تحت کرتے اور اس طرح ان کے منافع کا مارجن دیگر فلمسازوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا تھا۔
لیکن انھیں بعض اوقات خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مثلاً ان کی ایک فلم لخت جگر (1956) ، فلم حمیدہ (1956) کے ساتھ مقابلے کی فضا میں بنائی گئی تھی۔ ایک بھارتی فلم وچن (1955) کو کاپی کرنے کی دوڑ میں آغا صاحب کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایسی ہی ایک ہزیمت انھیں اگلے سال ایک اور مقابلے میں اٹھانا پڑی تھی جب ایورنیو پکچرز کی فلم لیلیٰ مجنوں (1957) ، ایوریڈی پکچرز کی فلم عشق لیلیٰ (1957) کے مقابلے میں بری طرح سے پٹ گئی تھی۔

ان کی ایک اور کاپی فلم پائل کی جھنکار (1966) کو 'جھنکار' کے نام سے نمائش کی اجازت ملی تھی۔

بطور فلمساز ان کی دیگر یادگار فلموں میں نغمہ دل (1959) ، رانی خان (1960) ، عذرا ، قیدی (1962) ، موج میلہ ، اک تیرا سہارا (1963) ، ڈاچی (1964) ، نائلہ (1965) ، باغی سردار (1966) اور سلام محبت (1971) وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم دارا سکندر (1981) تھی۔

ٹانگے والا خیر منگدا

مسعودرانا کے ساتھ آغا جی اے گل کی پہلی فلم ڈاچی (1964) تھی جس میں لافانی گیت "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ فلم نائلہ (1965) میں مالا کے ساتھ مسعودرانا کا دوگانا "دور ویرانے میں ایک شمع ہے روشن کب سے۔۔" ایک اور شاہکار گیت تھا۔ فلم راوی پار (1967) میں اسی جوڑی کے یہ دو رومانٹک گیت دل کے تار چھیڑ دیتے ہیں "راوی پار وسے میرا پیار۔۔" اور "وے مڑ جا اڑیا ، میں نئیں اوں آنا تیری ہٹی۔۔" فلم چاچا بھتیجا (1981) میں مسعودرانا کا اداکارہ اور گلوکار تانی کے ساتھ گایا ہوا یہ دوگانا بھی بڑا دلچسپ تھا "بلے بلے ، نی چنبے دیے بند کلیئے۔۔"

آغا جی اے گل کے بیٹوں نے بھی 'ایورنیو پکچرز' کے تحت کئی فلمیں بنائی تھیں۔ 1913ء میں پشاور میں پیدا ہوئے اور 1983ء میں لاہور میں انتقال ہوا تھا۔

مسعودرانا کے آغا جی اے گل کی 4 فلموں میں 7 گیت

(1 اردو گیت ... 6 پنجابی گیت )
1
فلم ... ڈاچی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: سدھیر
2
فلم ... ڈاچی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعودرانا ، احمد رشدی ، رفیق ٹنگو ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اے شاہ ، نذر ، رفیق ٹنگو
3
فلم ... نائیلہ ... اردو ... (1965) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: حمایت علی شاعر ... اداکار: شمیم آرا ، سنتوش
4
فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب
5
فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب
6
فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: احمد رشدی ، نسیم بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: رنگیلا ، رضیہ ، نذر
7
فلم ... چاچا بھتیجا ... پنجابی ... (1981) ... گلوکار: مسعود رانا ، تانی ... موسیقی: طافو ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: ننھا

Masood Rana & Agha G.A. Gul: Latest Online film

Masood Rana & Agha G.A. Gul: Film posters
DachiNaelaRavi Par
Masood Rana & Agha G.A. Gul:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Agha G.A. Gul:

Total 4 joint films

(1 Urdu, 3 Punjabi films)

1.1964: Dachi
(Punjabi)
2.1965: Naela
(Urdu)
3.1967: Ravi Par
(Punjabi)
4.1981: Chacha Bhateeja
(Punjabi)


Masood Rana & Agha G.A. Gul: 7 songs in 4 films

(1 Urdu and 6 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Dachi
from Saturday, 15 February 1964
Singer(s): Masood Rana, Ahmad Rushdi, Rafiq Tingu, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Nazar, A. Shah, Rafiq Tingu
2.
Punjabi film
Dachi
from Saturday, 15 February 1964
Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Sudhir
3.
Urdu film
Naela
from Friday, 29 October 1965
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Shamim Ara, Santosh
4.
Punjabi film
Ravi Par
from Friday, 9 June 1967
Singer(s): Ahmad Rushdi, Naseem Begum, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Nazar, Rangeela, Razia
5.
Punjabi film
Ravi Par
from Friday, 9 June 1967
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib
6.
Punjabi film
Ravi Par
from Friday, 9 June 1967
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib
7.
Punjabi film
Chacha Bhateeja
from Sunday, 2 August 1981
Singer(s): Masood Rana, Tani, Music: Tafu, Poet: , Actor(s): Nanha


Kharidar
Kharidar
(1976)
Ajnabi
Ajnabi
(1962)
Chakkar
Chakkar
(2022)
Nooran
Nooran
(1957)

Ghoonghat
Ghoonghat
(1996)
Afsana
Afsana
(1970)
Daket
Daket
(1989)

Pukar
Pukar
(1939)
Kamli
Kamli
(1946)
Elan
Elan
(1947)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.