مسعودرانا ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے سب سے زیادہ قابل رشک فلمی ریکارڈز کے مالک گلوکار تھے ، ایک خلاصہ ملاحظہ فرمائیں:
34 سالہ طویل کیریر
-
مسعودرانا ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار ہیں کہ جو 1962ء میں اپنی پہلی فلم سے لے کر 1995ء میں اپنے انتقال تک فلمی گائیکی کی ضرورت رہے تھے۔ اس 34 سالہ فلمی کیرئر میں کبھی کوئی ایک بھی سال ایسا نہیں گذرا تھا کہ جب مسعودرانا کی بطور گلوکار کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔
سب سے زیادہ فلموں میں سب سے زیادہ گیت
-
مسعودرانا نے اپنے اس طویل فنی سفر میں سب سے زیادہ فلموں میں سب سے زیادہ فلمی گیت گانے کا اعزاز حاصل کیا تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی فلمی گلوکار اپنی مرضی سے یا زبردستی نہیں گاتا تھا یا گا سکتا تھا بلکہ اس کے گیتوں کی تعداد اس کی مانگ یا ڈیمانڈ کا منہ بولتا ثبوت ہوتا تھا۔ فلمی موسیقی کی تمام تر فنی باریکیوں کے ذمہ دار موسیقار ہوتے تھے جو اپنی دھنوں کے لیے موزوں ترین گلوکار کا نتخاب کرتے تھے اور پاکستان میں مسعودرانا ، مردانہ فلمی گائیکی کی سب سے بڑی ضرورت ہوتے تھے جو کسی کی پسند یا نا پسند کے محتاج نہیں تھے۔
پنجابی فلموں کی سٹینڈرڈ آواز
-
مسعودرانا کے ایک ہزار سے زائد فلمی گیتوں میں سے ساٹھ فیصد گیت پنجابی زبان میں ہیں جو پاکستانیوں کی اکثریت کی مادری زبان بھی ہے۔ مسعودرانا، پنجابی فلمی گائیکی میں ایک سٹینڈرڈ مردانہ آواز بن چکے تھے اور اجارہ داری کا یہ عالم تھا کہ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی تعداد پاکستان کے دیگر پانچ بڑے گلوکاروں عنایت حسین بھٹی ، سلیم رضا ، منیر حسین ، احمدرشدی اور مہدی حسن کے گائے ہوئے کل پنجابی فلمی گیتوں کی مشترکہ تعداد سے بھی زیادہ تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پنجابی فلموں کا سرکٹ ،اردو فلموں کے سرکٹ کی نسبت چار سے پانچ گنا بڑا ہوتا تھا جہاں پنجابی فلموں کو ہی زیادہ اہمیت حاصل ہوتی تھی۔
ٹائٹل اور تھیم سانگز پر اجارہ داری
-
پاکستان کی اردو فلموں میں زیادہ تر نوجوان طبقے کو احمدرشدی کے شوخ و چنچل گیت اور سنجیدہ طبقے کو مہدی حسن کے غزل نما رومانٹک گیت اچھے لگتے تھے لیکن اونچی سروں میں گائے گئے مشکل ترین گیتوں کے علاوہ اردو اور پنجابی فلموں کے ٹائٹل اور تھیم سانگ گانے میں مسعودرانا کا کبھی کوئی ثانی نہیں رہا۔
فلموں اور گیتوں کی سینچریاں
-
مسعودرانا ہی پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار ہیں کہ جنھوں نے اردو اور پنجابی فلموں اور گیتوں کی سینچریاں بلکہ ڈبل سینچریاں بنائی تھیں۔
سو سے زائد اداکاروں کے لیے گیت گائے
-
مسعودرانا اپنے فلمی کیرئر میں کبھی کسی ایک اداکار کے لیے مخصوص نہیں رہے ۔ ان کے سب سے زیادہ گیت پس پردہ تھے ، جن کی تعداد سو سے بھی زائد ہے اور جو اداکاروں اور اداکاراؤں کے علاوہ مختلف فلمی صورتحال کے لیے گائے گئے تھے۔
آٹھ دھائیوں کے گلوکار
-
مسعودرانا کا فنی کیرئر چار عشروں پر محیط تھا لیکن ان کے گیت آٹھ عشروں پر پھیلے ہوئے فنکاروں پر فلمائے گئے تھے جو ایک اور منفرد ریکارڈ ہے۔ 1920ء کے عشرہ میں فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے اداکار نور محمد چارلی سے لے کر 1990ء کے عشرہ میں متعارف ہونے والے شان اور جان ریمبو پر بھی مسعودرانا کے گیت فلمائے گئے تھے۔
دو نسلوں کے اداکاروں پر گیت فلمائے گئے
دو نسلوں کے لیے گیت گائے
سپرہٹ گیتوں کا ریکارڈ
-
مسعودرانا نے 1966ء میں ستر سے زائد فلمی گیت گا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس ایک کیلنڈر ائر میں انھوں نے جتنے اردو پنجابی سپر ہٹ گیت گائے تھے ، اس کا ریکارڈ کبھی نہیں ٹوٹ سکا۔ یاد رہے اسی سال کی فلم ہمراہی میں مسعودرانا کے سات میں سے چھ گیت سپر ہٹ ہوئے تھے جو کسی ایک فلم میں ، کسی مرد گانے والے کا ، سب سے زیادہ سپر ہٹ گیت گانے کا ناقابل شکست ریکارڈ ہے۔ اسی فلم میں مسعودرانا نے نعت ، ترانہ ، غزل ، المیہ اور طربیہ گیت گا کر اپنے ورسٹائل ہونے کہ مہر ثبت کر دی تھی۔
ایک ہی دن سات فلمیں ریلیز ہوئیں
-
مسعودرانا نے 2 جنوری 1968ء کی عید الفطر کے دن ریلیز ہونے والی گیارہ میں سے سات فلموں میں نغمہ سرائی کر کے ایک ہی دن ریلیز ہونے والی زیادہ سے زیادہ فلموں میں گانے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
ایک ہی فلم کے سبھی گیت گائے
-
کسی گلوکار کے لیے کسی ایک فلم کے سو فیصدی گیت گانے کا ریکارڈ بھی مسعودرانا کے پاس ہے جنھوں نے 1990ء کی فلم بارود کا تحفہ کے چاروں گیت گائے تھے۔ اس فلم کے سبھی گیت جنگی ترانے تھے اور شاید واحد فلم تھی جس میں کوئی نسوانی گیت نہیں تھا۔
ڈبل ورژن گیتوں پر اجارہ داری
-
مسعودرانا نے پاکستان کا پہلا ڈبل ورژن پنجابی اردو گیت فلم بندہ بشر میں گایا تھا۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈبل ورژن پنجابی اردو فلموں میں نغمہ سرائی کا ریکارڈ بھی مسعودرانا ہی کے پاس ہے جنھوں نے ایک فلم پیار کرن توں نئیں ڈرنا کے لیے کل 12 گیت بھی گائے تھے جن میں سے اردو ورژن میں چھ اور پنجابی ورژن میں پانچ گیت تھے جبکہ چھٹا گیت فلم کے لیے موسیقار کمال احمد نے خودگایا تھا لیکن ریکارڈنگ میں مسعودرانا کا گایا ہوا تھا۔
میڈم نورجہاں کے ساتھ سب سے زیادہ دو گانے گائے