A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
اداکارہ غزالہ ، مسعودرانا کی فلم شاہی فقیر (1970) کی ہیروئن تھی۔۔!
مسعودرانا ، بڑے خوش قسمت فنکار تھے جنھیں فن گلوکاری میں اپنی بے مثل کارکردگی کی بنیاد پر اس فلم میں سولو ہیرو کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا لیکن بطور اداکار ناکام رہے تھے۔
اس فلم کی ہیروئن ، غزالی آنکھوں والی ایک حسین و جمیل اداکارہ غزالہ تھی جو ایک سی کلاس یا تیسرے درجہ کی فلمی ہیروئن ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس وقت تک ریلیز ہونے والی تقریباً بیس فلموں میں کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی تھی۔
پوری فلم پر اداکار ادیب چھائے ہوئے تھے جو ایک بی کلاس ولن اداکار تھے۔ ایسے میں حیرت ہوتی ہے کہ فلمساز نے اتنا بڑا رسک کیوں لیا اور ایک کمزور ٹیم کے ساتھ ایک ایسی فلم پر سرمایہ کاری کی کہ جو سراسر گھاٹے کا سودا تھی۔
غزالہ کی پہلی فلم کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ریکارڈز کے مطابق فلم ایک تھی ماں (1960) پہلی فلم تھی جس کی کاسٹ میں وہ شامل تھی۔
اصل میں 'پٹھان' نام سے بننے والی یہ فلم 1972ء میں فرض اور محبت کے نام سے دوبارہ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ فلمساز نے اس پرانی فلم میں مہمان اداکار کے طور پر غزالہ کا اضافہ کر کے اس پر ایک گیت بھی فلمبند کیا اور وہ بھی زبیدہ خانم کا
باسی مال کو نئے لیبل سے پیش کر کے فلمساز نے فلم بینوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی جس میں اسے ناکامی ہوئی تھی۔
عام طور پر غزالہ کی پہلی فلم باغی سردار (1966) بتائی جاتی ہے لیکن اس سے قبل ایک فلم باغی سپاہی (1964) میں بھی اس کا نام ملتا ہے۔
غزالہ کبھی صف اول کی اداکارہ نہیں بن سکی تھی اور زیادہ تر ثانوی کرداروں میں نظر آئی۔ وہ تیسرے درجہ کی اداکارہ اس لیے تھی کہ دوسرے درجہ کی اداکاراؤں یعنی سلونی ، روزینہ اور عالیہ وغیرہ کے مقابل بھی اس کے ثانوی کردار تھے۔
سولو ہیروئن کے طور پر اس کی فلموں کی تعداد بہت کم تھی اور کامیاب فلموں کا تناسب بھی نہ ہونے کے برابر تھا حالانکہ پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم کی روایتی ہیروئن ہونے کا ناقابل شکست اعزاز بھی اسے حاصل تھا۔
1967ء میں غزالہ کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں بطور سولو ہیروئن دو فلمیں تھیں ، فلم البیلا (1967) ، کمال کے ساتھ اور فلم میلہ (1967) ، علاؤالدین کے ساتھ تھی جس میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا
فلم راوی پار (1967) اور میرا ویر (1967) میں ثانوی کرداروں کے علاوہ فلم لال بجھکڑ (1967) میں مہمان اداکار کے طور نظر آئی۔ اس فلم میں غزالہ اور رنگیلا پر نذیر بیگم اور مسعودرانا کا ایک خوابناک ماحول میں گایا اور فلمایا ہوا یہ خوبصورت دوگانا تھا
1968ء میں غزالہ کی سات فلمیں منظرعام پر آئیں جن میں سے تین فلموں میں وہ سولو ہیروئن تھی۔ فلم زندگی (1968) میں غزالہ پر پہلا سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا جسے ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا
فلم الف لیلیٰ (1968) میں غزالہ پر دو دلکش رومانٹک دوگانے فلمائے گئے تھے جنھیں مسعودرانا اور آئرن پروین نے گایا تھا
سونے کی چڑیا (1968) تیسری فلم تھی جس میں وہ سولو ہیروئن تھی۔ باقی چاروں فلموں ، محل ، دل دیا درد لیا ، میں زندہ ہوں اور پیار دا ویری (1968) میں ثانوی کرداروں میں تھی۔
1969ء میں غزالہ کی چار فلمیں سامنے آئیں جن میں سے دو فلموں اوکھا جٹ اور زندگی کتنی حسین ہے (1969) میں وہ ثانوی کرداروں میں تھی جبکہ فلم داستان اور حکیم جی (1969) میں وہ سولو ہیروئن تھی۔ فلم داستان (1969) میں مہدی حسن کا ایک سدابہار گیت تھا
رتن کمار کی بطور اداکار یہ آخری فلم تھی جس کے فلمساز اور ہدایتکار بھی وہ خود تھے۔
غزالہ کی 1970ء میں پانچ فلمیں ، فلم بینوں تک پہنچی تھیں جن میں صرف فلم شاہی فقیر (1970) میں وہ سولو ہیروئن تھی۔ اس فلم میں غزالہ اور مسعودرانا پر یہ دلکش رومانٹک دوگانا فلمایا گیا تھا جس میں مالا کی آواز بھی شامل تھی
اسی فلم میں مسعودرانا کا یہ سولو گیت بھی غزالہ ہی کے لیے گایا گیا تھا
اس سال کی دیگر فلمیں کردار ، مجرم کون ، نورین اور ٹکہ متھے دا (1970) تھیں جن میں غزالہ کے ثانوی کردار تھے۔
1971ء تک غزالہ کی دو درجن فلمیں ریلیز ہو چکی تھیں لیکن وہ کسی قابل ذکر کامیابی سے محروم رہی تھی۔
اس سال اس کی صرف دو فلمیں سامنے آئیں جن میں وہ سیکنڈ ہیروئن تھی۔ ان میں سے ایک فلم خزانچی (1971) تھی جبکہ دوسری فلم عشق دیوانہ (1971) تھی جو غزالہ کے فلمی کیرئر کی پہلی سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم میں غزالہ پر فلمایا ہوا مالا کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
اسی گیت کو عنایت حسین بھٹی نے کیفی کے لیے گایا تھا جن کے ساتھ پہلی بار غزالہ کی جوڑی بنی تھی جو بالآخر شادی پر منتج ہوئی تھی۔
غزالہ اور کیفی کی مشترکہ فلموں کی تعداد 21 ہے۔ اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں بھٹی برداران یعنی عنایت حسین بھٹی اور کیفی نے اپنے تیسرے بھائی شجاعت حسین بھٹی کو بھی عالیہ کے مقابل تیسرے ہیرو کے طور پر متعارف کروایا تھا ، فردوس فرسٹ ہیروئن تھی جس نے پگلی کا زبردست رول کیا تھا۔
فلم عشق دیوانہ (1971) کا پوسٹر بڑا دلکش تھا۔ یہ فلم یکم اکتوبر 1971ء کو ریلیز ہوئی تھی اور اسی دن فلم عشق بنا کی جینا (1971) بھی ریلیز ہوئی تھی۔
دلچسپ اتفاق دیکھیے کہ میرے آبائی شہر کھاریاں میں عیدالفطر 20 نومبر 1971ء کو یہ دونوں فلمیں بالترتیب سازین اور قیصر سینماؤں میں ریلیز ہوئی تھیں۔ فلموں کے بورڈز پر لکھا ہوا لفظ 'عشق' بڑے غور سے دیکھتا تھا جو دونوں پینٹروں نے مختلف انداز میں لکھا تھا۔ ایک 'ع' کی چونچ کو گول جب کہ دوسرا نوکدار لکھتا تھا۔
سازین سینما کے مالکان کے لیے عید کا وہ دن ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا کیونکہ جب فلم کا پہلا شو شروع ہوا تو پتہ چلا کہ فلم عشق دیوانہ (1971) کے بجائے فلم چن مکھناں (1968) سکرین پر چل رہی ہے۔ احتجاج کے طور پر تماشائیوں نے ایسی ہنگامہ آرائی کی کہ شاید ہی کوئی کرسی سلامت بچی ہوگی ، مزے لے لے کر یہ واقعہ سنانے والے کو نئی کرسیوں کا آرڈر ملا تھا۔۔!
بدقسمتی سے یہ عید ، متحدہ پاکستان کی آخری عید ثابت ہوئی تھی کیونکہ مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہی تھی۔ قوم کو حسب معمول بے خبر رکھا جارہا تھا لیکن بیرونی ذرائع ابلاغ سے لوگ باخبر رہتے تھے اور حقائق پر پردہ ڈالنے والوں پر لعنت بھیجتے رہتے تھے۔ تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے تلخ ماضی کے وہ دلخراش واقعات کبھی نہیں بھلا سکا۔۔!
1972ء میں غزالہ کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن وہ کسی بھی فلم میں سولو ہیروئن نہیں تھی۔ دل نال سجن دے میں رانی ، کون دلاں دیاں جانیں میں دیبا ، نظام میں نغمہ اور ٹھاہ میں روزینہ کے علاوہ پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم ظلم دا بدلہ (1972) میں عالیہ کے ساتھ نظر آئی تھی۔
ہدایتکار کیفی کی سپرہٹ فلم ظلم دا بدلہ (1972) پہلی پنجابی فلم تھی جس نے سو ہفتے مکمل کیے تھے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اخبارات میں یہ خبر آئی تھی کہ عنایت حسین بھٹی نے اس موقع پر لاہور کے ملک تھیٹر پر فلم بینوں میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔
وہ میرا بچپن تھا ، باقاعدگی سے اخبارات پڑھتا ، ریڈیو سنتا ، ٹی وی اور فلمیں دیکھتا تھا لیکن فلموں کے ہفتوں اور بزنس کے بارے میں کوئی سمجھ نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کی جب 2006ء میں پاکستان فلم میگزین پر سلطان راہی کی فلموں کی کامیابیوں اور ہفتوں کے ہوشربا اعدادوشمار پر ایک تفصیلی مگر گمراہ کن مضمون شائع کیا تو میں خود اصل حقائق سے لاعلم تھا۔
سلطان راہی کے متعدد پرستاروں اور گروپوں نے وہ ساری معلومات ارسال کی تھیں جو میرے لیے بھی ناقابل یقین تھیں لیکن تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اپنی طرف سے بڑی چھان پھٹک کے بعد فلمی مواد شائع کیا کرتا تھا لیکن غلطیوں کا احتمال پھر بھی رہتا تھا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہر سطح پر جھوٹ بولا گیا ہے۔ فلمی معلومات کے ضمن میں بھی قابل اعتماد معلومات کا فقدان رہا ہے کیونکہ لوگ اپنے اپنے پسندیدہ فنکاروں کی تعریف و توصیف میں حقائق کو مسخ کرتے ہیں اور اپنی اپنی اوقات کے مطابق جھوٹ بولتے ، لکھتے اور پھیلاتے رہے ہیں۔ آج بھی وکی پیڈیا سمیت ہمارے قومی اور سوشل میڈیا پر اچھی خاصی بے سروپا باتیں درج ہیں۔ کاپی اور پیسٹ کے رحجان کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوئے ہیں اور سچ تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف رہا ہے۔
پاکستان فلم میگزین ، اسوقت تک پاکستانی فلموں کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ ہوتا تھا۔ یہ ویب سائٹ ، ایک انفرادی کاوش ہے جو گزشتہ بیس برسوں سے میرے فارغ اوقات کا بہترین مشغلہ رہی ہے اور جس کے جملہ امور تن تنہا اپنی مدد آپ کے تحت سرانجام دے رہا ہوں۔ میں نے کبھی دانستہ غلط بیانی نہیں کی اور نہ ہی میرا اس میں کبھی کوئی مفاد رہا ہے۔ لاعلمی کی وجہ سے غلط معلومات کا اندراج ہو جاتا ہے جو ایک بشری کمزوری ہے۔ البتہ جیسے ہی میرے علم میں ایسی کوئی غلطی آتی ہے تو فوراً درست کر دیتا ہوں اور یہی خوبی ایک ویب سائٹ کو ابلاغ کے دیگر ذرائع میں ممتاز کرتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپ ڈیٹ رکھی جاسکتی ہے۔
سلطان راہی کے اس صفحہ کی پروگرامنگ ، ڈیزائننگ اور گرافک پر بڑی محنت کی تھی لیکن اس میں شامل مواد میرا اپنا نہیں تھا۔ غلط معلومات کی وجہ سے اس کو آف لائن کردیا تھا لیکن پھر سرچ کرنے پر پتہ چلا کہ ویب سائٹس کا سارا مواد آن لائن محفوظ رہتا ہے تو میں نے پرانی ویب سائیٹ کو اس پیغام کے ساتھ بحال کر دیا تھا کہ اس صفحہ پر درج معلومات گمراہ کن ہیں اور اپ ڈیٹس کے لیے موجودہ ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں۔
1973ء میں غزالہ کی صرف دو فلمیں خوشیا اور بلا چیمپئن (1973) ریلیز ہوئیں جن میں وہ ثانوی کرداروں میں تھی۔ بلا چیمپئن (1973) میں اسکی جوڑی رنگیلا کے ساتھ تھی اور ان دونوں پر ملکہ ترنم نورجہاں اور مسعودرانا کا یہ مزاحیہ گیت فلمایا گیا تھا
1974ء میں غزالہ کی ایک بار پھر پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ نگری داتا دی اور غیرت دا پرچھاواں (1974) میں وہ سیکنڈ ہیروئن تھی لیکن باقی تینوں فلموں ہسدے آؤ ہسدے جاؤ ، رانو اور چیلنج (1974) میں فرسٹ ہیروئن تھی۔
1975ء میں بھی غزالہ کی پانچ ہی فلمیں سلور سکرین کی زینت بنی تھیں۔ صرف فلم پیشہ ور بدمعاش (1975) میں وہ فرسٹ ہیروئن تھی لیکن باقی چاروں فلموں ، ماجھا ساجھا ، مرداں ہتھ میدان ، بکھرے موتی اور وحشی جٹ 1975) میں سائیڈ ہیروئن تھی۔
فلم وحشی جٹ (1975) میں غزالہ نے ایک اتھری یا خودسر عورت کا رول کیا تھا جسے اس کی سوتن چکوری نے فلم مولاجٹ (1979) میں دہرایا تھا ، ان دونوں خودسر عورتوں کو سر کرنے کا اعزاز کیفی صاحب کو حاصل ہوا تھا۔۔!
1976ء میں غزالہ کے نام پر مزید چار فلموں کا اضافہ ہوا تھا لیکن وہ کسی فلم میں سولو ہیروئن نہیں تھی۔ فلم جگا گجر (1976) میں بھی غزالہ نے ایک اتھری عورت کا کردار کیا تھا اور اس کے ہیرو کیفی تھے۔ دیگر فلمیں الٹی میٹم ، مفرور اور زندہ باد (1976) تھیں۔ فلم الٹی میٹم (1976) میں غزالہ پر افشاں کا شوخ اور میڈم نورجہاں کا سنجیدہ انداز میں گایا ہوا گیت
فلمایا گیا تھا۔ اس فلم میں کیفی ، مونچھوں کے بغیر بڑے خوبصورت نظر آئے۔ اعجاز اور کمال کے بعد کیفی تیسرے فلمی ہیرو تھے کہ جن کی اصل مونچھیں ہوا کرتی تھیں اور جو ان کی شخصیت کی پہچان بھی ہوتی تھیں۔
1977ء میں غزالہ کی تین فلمیں ملتی ہیں ، لاہوری بادشاہ ، روٹی کپڑا اور انسان اور ہمت (1977) ، ان تینوں فلموں میں اس کے ثانوی کردار تھے۔ 1978ء میں غزالہ کی آخری فلم اعلان ریلیز ہوئی تھی جس کا پہلا نام ڈنکے دی چوٹ تھا۔ اس فلم میں غزالہ پر آخری گیت
یہ گیت ناہیداختر نے گایا تھا جبکہ اس گیت کا میل ورژن ، بھٹی صاحب کی آواز میں کیفی پر فلمایا گیا تھا۔
اداکارہ غزالہ نے ہدایتکار اور اداکار کیفی سے شادی کی تھی اور ان کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑا بیٹا عامرکیفی ، اپنے والد کی ایک فلم میدان (2004) میں بطور اداکار نظر آیا لیکن کامیاب نہیں ہوا۔
بتایا جاتا ہے کہ غزالہ بیگم ستر سال سے زائد کی عمر میں ہیں اور امریکہ میں اپنے عزیزواقارب کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
1 | نمی نمی تاریاں دی پیندی اے پھوار..فلم ... لال بجھکڑ ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: نذیر بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: سلیم اقبال ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: غزالہ ، رنگیلا |
2 | اک حسین موڑ پر ٹکرائے ہیں دیوانے دو..فلم ... الف لیلیٰ ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: کمال ، غزالہ |
3 | تم مجھے اپنی محبت دے دو ، دل میں رہنے کی اجازت دے دو..فلم ... الف لیلیٰ ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: شباب کیرانوی ... اداکار: کمال ، غزالہ |
4 | یہ رنگین نظارے ، یہ چاند اور تارے ، یہی رازداں ہیں ، ہمارے تمہارے..فلم ... شاہی فقیر ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: غزالہ ، مسعود رانا |
5 | رس رس کے وخانا کنو ، جا جھوٹا بے ایمان..فلم ... بلا چیمپئن ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: غزالہ ، رنگیلا |
1 | اک حسین موڑ پر ٹکرائے ہیں دیوانے دو ...(فلم ... الف لیلیٰ ... 1968) |
2 | تم مجھے اپنی محبت دے دو ، دل میں رہنے کی اجازت دے دو ...(فلم ... الف لیلیٰ ... 1968) |
3 | یہ رنگین نظارے ، یہ چاند اور تارے ، یہی رازداں ہیں ، ہمارے تمہارے ...(فلم ... شاہی فقیر ... 1970) |
1 | نمی نمی تاریاں دی پیندی اے پھوار ...(فلم ... لال بجھکڑ ... 1967) |
2 | رس رس کے وخانا کنو ، جا جھوٹا بے ایمان ...(فلم ... بلا چیمپئن ... 1973) |
1 | نمی نمی تاریاں دی پیندی اے پھوار ...(فلم ... لال بجھکڑ ... 1967) |
2 | اک حسین موڑ پر ٹکرائے ہیں دیوانے دو ...(فلم ... الف لیلیٰ ... 1968) |
3 | تم مجھے اپنی محبت دے دو ، دل میں رہنے کی اجازت دے دو ...(فلم ... الف لیلیٰ ... 1968) |
4 | یہ رنگین نظارے ، یہ چاند اور تارے ، یہی رازداں ہیں ، ہمارے تمہارے ...(فلم ... شاہی فقیر ... 1970) |
5 | رس رس کے وخانا کنو ، جا جھوٹا بے ایمان ...(فلم ... بلا چیمپئن ... 1973) |
1. | 1974: Nagri Daata Di(Punjabi) |
1. | 1967: Lal Bujhakkar(Punjabi) |
2. | 1967: Ravi Par(Punjabi) |
3. | 1967: Mera Veer(Punjabi) |
4. | 1967: Mela(Punjabi) |
5. | 1968: Alf Leila(Urdu) |
6. | 1970: Shahi Faqeer(Urdu) |
7. | 1970: Pardesi(Punjabi) |
8. | 1970: Tikka Mathay Da(Punjabi) |
9. | 1972: Nizam(Punjabi) |
10. | 1973: Ghairat Da Parchhavan(Punjabi) |
11. | 1973: Khushia(Punjabi) |
12. | 1973: Billa Champion(Punjabi) |
13. | 1974: Nagri Daata Di(Punjabi) |
14. | 1974: Rano(Punjabi) |
15. | 1977: Himmat(Punjabi) |
1. | Punjabi filmLal Bujhakkarfrom Friday, 6 January 1967Singer(s): Nazir Begum, Masood Rana, Music: Saleem Iqbal, Poet: Waris Ludhyanvi, Actor(s): Ghazala, Rangeela |
2. | Urdu filmAlf Leilafrom Friday, 1 March 1968Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: Tasadduq Hussain, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Kemal, Ghazala |
3. | Urdu filmAlf Leilafrom Friday, 1 March 1968Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: Tasadduq Hussain, Poet: Shabab Keranvi, Actor(s): Kemal, Ghazala |
4. | Urdu filmShahi Faqeerfrom Friday, 2 January 1970Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: Mushir Kazmi, Actor(s): Ghazala, Masood Rana |
5. | Punjabi filmBilla Championfrom Friday, 21 December 1973Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: Hazin Qadri, Actor(s): Ghazala, Rangeela |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.