پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات 24 اکتوبر 2024ء
پاک میگزین کے 25 سال
"پاک میگزین"، گزشتہ 25 برسوں سے مسلسل آن لائن رہنے والی ایک منفرد ویب سائٹ ہے جو اصل میں "پاک ڈائجسٹ" کا تسلسل ہے جس کا آغاز اپریل 1975ء میں ہوا تھا۔۔!
"پاک ڈائجسٹ" بنا "پاک میگزین"
"پاک میگزین" کا موجودہ انداز، "مظہراقبال کا پاکستان"، جس میں پاکستان کی تاریخ کو بتاریخ ایک منفرد طریقے اور سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، 23 مارچ 2017ء کو وجود میں آیا لیکن اس ویب سائٹ کا باقاعدہ آغاز، ایک ذاتی میڈیا ڈائریکٹری کے طور پر جون 1999ء میں "مظہراقبال کا ہوم پیج" کے نام سے ہوا جس کا پہلا دن، 24 اکتوبر 1999ء کا شمار کرتا ہوں جب یہ ویب سائٹ پہلی بار وزٹ کی گئی تھی۔
تب سے اب تک، شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا کہ جب کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ہوں اور اپنی ویب سائٹ کا کوئی کام نہ کیا ہو۔ حقیقت میں گزشتہ پچیس برسوں میں یہ ویب سائٹ، میری عادتِ ثانیہ بن چکی ہے جس کے جملہ امور تن تنہا اپنے فارغ اوقات میں سرانجام دیتا ہوں۔ اپنے اس عزمِ مصمم، ثابت قدمی اور مستقل مزاجی پر خود بھی حیران ہوں۔
پاک میگزین کی تاریخ
1999ء میں مائیکروسوفٹ کا ایک کورس کیا جس میں ایک دن کا تعارف HTML سے تھا جو ویب سائٹ بنانے کی بنیادی تیکنیک ہے۔ اس نئے علم نے میری آتشِ شوق کو بھڑکا دیا اور میڈیا سے گہری دلچسپی اور انٹرنیٹ کی آمد سے ایک نادر موقع ملا کہ اپنی ادھوری خواہشات کی تکمیل اور اپنی پوشیدہ یا پیدائشی صلاحیتوں کا اظہار کر سکوں۔
جون 1999ء میں پاک میگزین کا پہلا ڈیزائن
مارچ 2000ء میں اپنی ویب سائٹس میں پہلی بار انقلابی تبدیلیاں کیں جن میں پاکستانی تاریخ اور میڈیا کے بارے میں اہم ترین لنکس کو text links کی بجائے image links اور اخبارات کے انداز میں کالموں کی شکل میں پیش کیا جو پاکستانی ویب سائٹس میں ایک نیا تجربہ تھا۔ بھلا ہو میری کمپنی کے دیے ہوئے لیپ ٹاپ کمپیوٹر کا کہ جس میں Photoshop جیسا پروفیشنل گرافک سافٹ ویئر انسٹال تھا جس میں اپنے طور پر مہارت حاصل کی اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
یہ نیا سلسلہ بے حد پسند کیا گیا اور اس حوصلہ افزائی سے پاکستان کے علاوہ دیگر اہم عالمی اور ڈینش لنکس کے علاوہ IT اور کرکٹ کے بارے میں بھی اہم ترین لنکس اکٹھے کیے جو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ "پاک میگزین" کا سب سے مقبول ترین حصہ "پاکستان فلم میگزین" ہے جس کا باقاعدہ آغاز 3 مئی 2000ء کو ہوا جو ایک منفرد اور تاریخ ساز ویب سائٹ ثابت ہوئی۔
mazhar.dk کا آغاز
"پاک میگزین" کی ان مختلف ویب سائٹس کو 2002ء میں ایک ڈومین mazhar.dk کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس سے انتظامی اور تیکنیکی معاملات میں بڑی آسانی پیدا ہوئی۔ اس دوران HTML کے علاوہ ویب سائٹ کو ڈیزائن کرنے والی زبان CSS، مینو وغیرہ کے لیے Javascripts اور اردو لکھنے کے لیے InPage وغیرہ سے بھی اپنی مدد آپ کے تحت واقفیت پیدا کی۔الحمدللہ، اس ویب سائٹ کی تیاری میں مجھے کبھی کسی غیر کی محتاجی نہیں ہوئی اور ہمیشہ ہر کام خود ہی کیا۔ تحریر وتحقیق، ترتیب و تدوین اور تعمیر و تکمیل کے تمام تر مراحل اپنے محدود علم کے مطابق طے کرتا ہوں ۔ یہاں تک کہ اس ویب سائٹ کے کوڈز (ماسوائے جاوا اور ڈیٹا بیس سکرپٹس کے)،گرافک (ماسوائے ہیلتھ میگزین کے) اور تمام تر ویب ڈیزائن یا لے آؤٹ بھی خود بناتا ہوں اور آج تک کسی خودکار ویب سائٹ بنانے والے پلیٹ فارمز یعنی CMS کا استعمال نہیں کیا۔
mazhar.dk کے اہم سنگِ میل
- 2002ء میں زمانہ طالب علمی کے دور میں اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی "شعر و شاعری" کی ڈائریوں کو آن لائن کیا۔ اسی سال InPage سافٹ ویئر پر پہلا اردو مضمون پاکستان میں بھارتی فلموں کی متوقع نمائش کے بارے میں لکھا تھا۔
-
2004ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو شہیدؒ کی 25ویں برسی پر اپنی سیاسی ڈائریوں کے وہ صفحات پیش کیے جو بھٹو صاحب کے آخری ایام تھے۔ وہ تمام تر مواد اب بھٹو صاحب کے بارے میں مخصوص ویب سائٹ کے علاوہ پاکستان کی سال بسال تاریخ کے صفحات میں بھی شامل ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تاریخ کا ایک طالبِ علم ہونے کے ناطے میرے لیے بھٹو صاحب کی شخصیت اور سیاسی کردارہمیشہ سے انتہائی غیرمتنازعہ رہا ہے لیکن ان کی پارٹی یا پاکستان کی اقتدار کی سیاست سے کبھی کسی قسم کا کوئی تعلق رہا نہ کبھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ - اسی سال فروری 2004ء میں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی جس پر انٹرنیٹ کی تاریخ میں پہلی بار حج کے موضوع پر اردو میں ایک باتصویر معلوماتی ویب سائٹ بنائی۔ InPage سافٹ ویئر پر بنائی گئی یہ میری پہلی مکمل اردو ویب سائٹ تھی۔
- 2005ء میں کوپن ہیگن ڈنمارک سے اٹلی تک ٹرین کے "سفرنامے" پر اردو میں ایک اور باتصویر معلوماتی ویب سائٹ بنائی۔
- 2007ء میں پاکستان کی 60ویں سالگرہ کے موقع پر "پاکستان کی جغرافیائی تاریخ" پر ایک بھرپور جدت آمیز ڈائنامک اردو ویب سائٹ بنائی جس میں پاکستان کے نقشہ کے مختلف حصوں پر ماؤس لانے سے تاریخی حقائق سامنے آتے ہیں۔
- 2007ء میں سوشل میڈیا پر بڑی سرگرمی رہی۔ بلاگ، ٹوٹر اور فیس بک کا استعمال کیا۔ یوٹیوب عام ہوا تو بڑی تعداد میں ویڈیوز بنائے اور آن لائن کیے۔ یہ سلسلہ 2014ء تک جاری رہا۔
- 2008ء میں پاکستانی فلموں کے 60 سال کے سلسلے میں بڑی تعداد میں معلوماتی مضامین لکھے جو اردو میں پہلی آن لائن کاوش تھی۔ اسی دوران 18 مارچ 2008ء کو پاکستانی فلم "ارمان" کو میں نے ہی پہلی بار یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا تھا۔
- 2009ء میں پاکستانی سفارتخانوں کی ایک منفرد ویب سائٹ بنائی جس میں بنیادی معلومات کے علاوہ گوگل ماپس کی مدد سے ہر سفارتخانے کی عمارت اور اردگرد کے ماحول کو تصویر کی شکل میں دکھایا۔ اسی سال قارئین کے بحث و مباحثے کے لیے ایک بلاگ بھی جاری کیا۔
- 2010ء میں پہلی بار کوپن ہیگن ڈنمارک کے لیے "نماز کیلنڈر" بھی بنایا جس کے ساتھ اسلامی تہواروں کی فہرست بھی دی۔ اس سے قبل "رمضان کیلنڈر" کا اجراء بھی کیا تھا۔
- 2011ء میں سقوطِ ڈھاکہ کی 40ویں برسی پر تاریخی حقائق پر ایک تفصیلی ویب سائٹ بنائی۔ اسی سال مغلیہ سلطنت کے علاوہ ڈنمارک کی سیاسی تاریخ کو اردو میں پیش کیا۔
- 2011ء ہی میں یہاں کے ایک مقامی ڈاکٹر صاحب کی مدد سے "ہیلتھ میگزین" کا آغاز کیا جس کے ایک ایک مضمون پر بڑی محنت کی تھی۔ یہ مضامین اردو کے علاوہ انگلش اور ڈینش زبانوں میں بھی تھے۔
- 2013ء میں ملعون جنرل ضیاع مردود کی 25ویں برسی پر اپنی ڈائریوں کے مواد کے علاوہ ایک بھرپور تحقیقی مضمون لکھا جس نے باطل اور جابر قوتوں کو سیخ پا کردیا اورقتل کی دھمکیوں کے علاوہ مسلسل ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی سال پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے بارے میں مستقل اہمیت کی حامل اہم ترین معلومات پر تفصیلی اردو مضامین لکھے۔
- 23 مارچ 2017ء کو mazhar.dk اور akhbarat.com کے علاوہ پاکستان فلم میگزین کا الگ ڈومین pakfilms.net اور "ہیلتھ میگزین" کا الگ ڈومین pakmag.dk بھی ایک نئے مشترکہ ڈومین pakmag.net میں ضم کر کے ایک نئی ویب سائٹ "پاک میگزین" کا نام دیا گیا جس میں ان چاروں ویب سائٹس کا مواد موجود ہے۔
akhbarat.com کا آغاز
یکم جنوری 2011ء کو ایک نئی ویب سائٹ akhbarat.com کا آغاز کیا جو مکمل طور پر پاکستانی میڈیا لنکس کے لیے وقف تھی۔ اس میں چیدہ چیدہ اور بلا امتیاز پاکستانی اخبارات و جرائد کے علاوہ سمندر پار پاکستانی میڈیا کے لنکس بھی دیے گئے۔ 2017ء میں پاکستانی میڈیا کا ڈیٹابیس بنایا تو ان لنکس کو اپ ڈیٹ کرنا بڑا مشکل کام ہوگیا تھا۔ یہ ویب سائٹ یادگار کے طور پر "پاک میگزین" میں شامل ہے لیکن اپ ڈیٹ نہیں ہوتی۔
"اخبارات ڈاٹ کم" کا اردو میں جو تعارف لکھا، اس میں ایک نیا تجربہ کیا اور عبارت میں گرافک کو لنکس سمیت مکس کیا گیا۔
اس وقت اردو عبارت کو "ان پیج" سافٹ وئیر میں لکھ کر ایک گرافک کی صورت میں شائع کیا جاتا تھا جو بڑا محنت اور وقت طلب کام ہوتا تھا لیکن موبائیل کی آمد کے بعد یہ طریقہ کارآمد نہیں رہا تھا کیونکہ گرافک میں لکھی گئی عبارت کا ایک ہی سائز ہوتا تھا جو ڈیوائس سکرین کے مطابق یونی کوڈ عبارت کی طرح پھیلتا یا سکڑتا نہیں تھا۔ InPage میں لکھی گئی عبارت سرچ یا کاپی پیسٹ بھی نہیں ہو سکتی تھی اور غلطی کی صورت میں نئی گرافک بنانا پڑتی تھی۔ لنکس لگانا اور بھی مشکل کام ہوتا تھا جس کے لیے مجھے Dreamweaver جیسے پروفیشنل ویب سافٹ ویئر کی ضرورت پڑتی تھی۔
حالاتِ حاضرہ پر ویب سائٹ
اس دوران mazhar.dk کو ایک مختصر مدت کے لیے حالاتِ حاضرہ کے لیے وقف کیا گیا جس میں وزٹرز نے بھرپور شرکت کی لیکن ایک تن تنہا شخص کی اوقات سے بہت بڑا مشکل اور مشقت والا کام تھا۔ بدقسمتی سے ہم ایک منتشر قوم ہیں، مختلف طبقہ ہائے فکر کو مطمئن کرنا ممکن نہ تھا۔ ویسے بھی میری ویب سائٹس کا بنیادی مقصد معلوماتِ عامہ تک ہر خاص و عام کی رسائی ہے نہ کہ بلا وجہ کی محاذ آرائی۔۔!
سوشل میڈیا کی مقبولیت نے روایتی میڈیا کی اہمیت کم کردی تو میں نے میڈیا لنکس کے صفحات پر توجہ دینے کی بجائے Twitter جو اب X کہلاتا ہے، کی ایک لسٹ تیکنیک استعمال کی جس میں مختلف موضوعات پر کیے گئے ٹویٹس کو آن لائن پیش کیا۔ اس سے جہاں پاکستانی میڈیا سے تازہ ترین خبریں آن لائن دستیاب ہوتی تھیں، وہاں کھیل، شوبز کی دنیا کے علاوہ دیگر خبریں بھی مل جاتی تھیں۔ ٹوٹر کی یہ سروس بند ہونے سے مجھے بڑا افسوس ہوا لیکن کسی پر انحصار نہ کرنے کا سبق بھی ملا۔
تاریخِ پاکستان پر ویب سائٹ
انھی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کا سلسلہ ختم کر کے ساری توجہ پاکستان کی تاریخ پر مبذول کی جس سے بہت کم پاکستانیوں کو دل چسپی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ویب سائٹ، صرف اور صرف اپنی ذہنی تسکین کے لیے بناتا ہوں جس کے لیے مجھے کسی کی خوشنودی، ناراضی یا کسی قسم کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے، الحمدللہ۔۔!
میں اپنا تاریخ نویسی کا کام بڑی ایمانداری اور ثابت قدمی کے ساتھ سرانجام دے رہا ہوں اور پاکستان کی تاریخ کو اس کے اصل سیاق و سباق میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بڑی عرق ریزی کے بعد تاریخی حقائق کے علاوہ اس دور کے اخباری تراشے، تصاویر، ویڈیوز وغیرہ بھی پیش کر رہا ہوں تا کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ بندہ بشر ہوں، کہیں غیرارادی طور پر غلطی ہو سکتی ہے لیکن ارادتاً غلط بیانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ ہر شخص کا اپنا ظرف ہے کہ وہ کیا سچ سمجھتا ہے یا سمجھنا چاہتا ہے، اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں لیکن دل کی گہرائیوں سے قرآنِ حکیم کے مطابق جھوٹے اور کذاب لوگوں پر خدا کی لعنت بھیجتا ہوں (لعنۃ اللہ علی الکذبین)۔
پاک میگزین کا آغاز
2011ء ہی میں ڈیٹابیس اور پروگرامنگ کے کورس کرنے کا موقع ملا جنھوں نے میری ویب سائٹ کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ پہلے ایک ایک صفحہ الگ الگ اپ ڈیٹ ہوتا تھا جو بڑا ہی مشکل اور محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن اس نئے علم نے میرا کام بہت آسان کردیا ۔ اس کا پہلا تجربہ "نماز ٹائم ٹیبل" بنا کر کیا جبکہ دوسرا تجربہ "پاکستان فلم میگزین" پر کیا اور ہزاروں فلموں، فنکاروں اور گیتوں کو مناسب طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب ہوا۔
ڈیٹابیس کے اس کامیاب تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے 23 مارچ 2017ء کو سابقہ تمام ڈومینز کو ختم کرکے ایک نئے ڈومین pakmag.net پر "پاک میگزین" کا آغاز کیا جس پر پاکستان کی سیاسی تاریخ کو یونی کوڈ اردو میں بتاریخ پیش کرنا شروع کیا۔ اس ترتیب سے واقعات کے تسلسل اور ان میں ربط سے تاریخی واقعات کی صداقت کو سمجھنا اور پرکھنا آسان ہو گیا۔ علاوہ ازیں، اردو عبارت کو سرچ اور کاپی پیسٹ کرنے، سالانہ، ماہانہ، ہفتہ وارانہ، روزانہ کے علاوہ حروفِ تہجی اور اہم موضوعات کے حوالے سے بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
پاک میگزین کی بنیاد، پاک ڈائجسٹ
"پاک میگزین" کی بنیاد اصل میں "پاک ڈائجسٹ" ہے جو اپنے لڑکپن کے دور میں اپنی سکول کی کاپیوں کے صفحات پر بناتا تھا اور ایسی معلومات کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتا تھا جو تاریخی اہمیت رکھتی ہیں۔
"پاک ڈائجسٹ" کا آغاز 13 سال کی عمر میں اپریل 1975ء میں کوپن ہیگن (ڈنمارک) سے ہوا اور اختتام، 16سال کی عمر میں نومبر 1978ء کو اپنے آبائی شہر کھاریاں میں ہوا۔
ماہنامہ پاک ڈائجسٹ کے مختلف موضوعات پر مضامین
جب کھیل کود اور بے فکری کی عمر ہونا چاہیے تھی تب مجھے یہ فکر دامن گیر ہوتی تھی کہ مہینہ مکمل ہونے سے قبل اپنا رسالہ مکمل کرنا ہے یعنی "ڈیڈ لائن" مقرر کر لیتا تھا حالانکہ اس کا قاری بھی میں خود ہی ہوتا تھا یا کبھی کبھار چند عزیزواقارب کی نظر سے گزرتا تھا۔
ماہنامہ پاک کوپن ہیگن کا جولائی 1976ء کا اداریہ
سیاسی اور تاریخی شعور کی ابتداء
جب سے ہوش سنبھالا ہے میڈیا سے گہری دلچسپی رہی ہے۔ 1970ء میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے تو میری عمر آٹھ سال تھی اور تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن روزانہ اخبارات کامطالعہ اور اپنے بزرگوں کو نیوز ریڈرز کے انداز میں خبریں پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔
اس دور کے سیاسی حالات خصوصاً بھٹو صاحب کی طلسماتی شخصیت کے اثرات آج تک نہیں بھلا سکا۔ یہی وجہ تھی کہ کتب بینی، اخبارات و جرائد، ریڈیو اور فلم کے علاوہ سیاست اور تاریخ سے بھی بڑی گہری دلچسپی پیدا ہوگئی جو اس ویب سائٹ کی تشکیل کے بنیادی عناصر ثابت ہوئے۔
1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان نے میرے ذہن پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ حالاتِ حاضرہ، پاکستان کی تاریخ اور میڈیا سے اتنا گہرا جنون پیدا ہوا کہ اپنی سکول کی کاپیوں پر اہم ترین واقعات کو لکھ کر محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے لگا جو تاریخ نویسی کی ابتداء تھی۔
پاک میگزین کی انسپائریشن
1973ء میں ڈنمارک آمد کے بعد سکول کے بعد زیادہ تر وقت ایک بہت بڑی لائبریری میں گزرتا جہاں دنیا بھر کی کتابوں اور اخبارات و جرائد کا مطالعہ اور ورق گردانی وسعتِ علم کا باعث بنا وہاں آتش شوق مزید بھڑک اٹھی۔
اسی دوران ایک ایسی کتاب سامنے آئی جو ڈنمارک کا سالنامہ ہوتی تھی۔ اس کتاب کا نام Hvem, Hvad, Hvor یعنی "کون، کیا، کہاں" تھا اور یہ کتاب 1933ء سے 2012ء تک ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتی رہی۔ اس کتاب میں چیدہ چیدہ ملکی اور بین الاقوامی واقعات کو بتاریخ ایک ترتیب اور سلیقے سے پیش کیا جاتا تھا، یہی انسپائریشن تھی جو میری اس ویب سائٹ کی تشکیل کا باعث بنی۔
ماہنامہ پاک ڈائجسٹ کھاریاں
کے نومبر 1978ء کے آخری شمارے میں
ایک سولہ سالہ اناڑی شاعر کی شاعری۔۔!
پاک ڈائجسٹ کا آغاز
ڈنمارک میں پہلے تین سالہ قیام کے دوران اخبارات و جرائد کے علاوہ مختلف تاریخی، سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر کتابوں، ناولوں اور ڈائجسٹ رسالوں کا وسیع مطالعہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپریل 1975ء میں صرف تیرہ سال کی عمر میں ایک ماہنامہ رسالہ "پاک" بنانا شروع کیا جو آگے چل کر "پاک ڈائجسٹ" کہلایا۔
لڑکپن کے اس منفرد شوقیہ اردو رسالے میں وہ تمام تر مواد موجود ہوتا تھا جو اس دور میں لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ جرائد، "اردو ڈائجسٹ"، "سیارہ ڈائجسٹ" اور "حکایت" میں ہوتا تھا۔ سیاسی، تاریخی اور سماجی حالات و واقعات کے علاوہ ناول، افسانے، دین و دنیا، طنزومزاح کے علاوہ قافیے ملا کر بے تکی شاعری بھی خود ہی کر لیا کرتا تھا۔
میرے میڈیا اور تاریخ نویسی کے جنون کا یہ عالم تھا کہ ایک ماہنامہ ہی کافی نہیں تھا بلکہ سیاسی حالات و واقعات کے لیے ایک "ہفت روزہ اخبارِ پاک" بھی بناتا تھا۔ ایک مختصر وقت ایسا بھی آیا جب ریڈیو سے خبریں سن کر روزانہ کا ایک اخبار "روزنامہ پاک" بھی تیار کر کے سوتا تھا۔ افسوس کہ میرے روزنامے اور ہفت روزہ رسالے ڈنمارک سے پاکستان نقلِ مکانی میں ضائع ہوگئے لیکن "ماہنامہ پاک ڈائجسٹ" کے کچھ شمارے بچ گئے ہیں جن کی کچھ جھلک پیش کر رہا ہوں۔
ذہنی پختگی
"پاک ڈائجسٹ" کا آخری شمارہ نومبر 1978ء میں لکھا جس میں اس وقت پاکستان اور عالمی سیاسی حالات و واقعات کا احاطہ کیا تھا۔ مثلاً فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ منسوخ ہوا جس سے پاکستانی عوام چار ہزار میگاواٹ سستی بجلی سے محروم ہوئے اور میں نےسرخی جمائی "عیش اڑاؤ"۔ پاکستان کی تاریخ کے واحد عوامی لیڈر بھٹو کے خلاف سرکاری خرچ پر معاندانہ پروپیگنڈہ انتہا تک پہنچا اور اس کے سیاسی مخالفین کی سول حکومت بنائی گئی۔ جنرل ضیاع مردود خود ساختہ صدر بنا اور مصر اور اسرائیل کے مابین کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا، وغیرہ۔
ماہنامہ پاک ڈائجسٹ کھاریاں
کے اکتوبر 1977ء کے شمارے میں "حالِ دل"
ملعون جنرل ضیاع مردود کے سیاہ ترین دور میں آئین و قانون کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ جنگل کا قانون تھا جس میں عدلیہ، میڈیا اور عوام الناس کو بزورِ قوت دبایا گیا اور ملکی وسائل کی کھلی لوٹ مار ہوئی۔ ہیروئن، کلاشنکوف اور ڈالروں کی سمگلنگ سرکاری پالیسی تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے اکلوتے عوامی لیڈر کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھا کر عبرتناک مثال بنا دیا گیا۔ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو تاریخ میں پہلی بار کوڑے مارے گئے، سرِعام پھانسیاں دی گئیں۔ خوف و ہراس کا عالم تھا اور لوگ جنرل ضیاع مردود کو "کانا دجال" بھی کہتے تھے۔
ایسے بدترین حالات نے مجھے ذہنی پختگی اور سیاسی شعور دیا اورصرف پندرہ سولہ سال کی عمر ہی میں سمجھ میں آگیا تھا کہ (ڈنمارک کی) جمہوریت اور (پاکستان کی) آمریت میں کیا فرق ہے اور مملکتِ خدادِ پاکستان کا اصل مالک کون ہے اور یہ کہ آزادی کے ثمرات اور غلامی کے مضمرات کیا ہوتے ہیں۔
1977ء کے انتخابات کو متنازعہ بنانا، بھٹو کے خلاف تحریک چلوانا، شرمناک کردار کشی کروانا اور تختہ الٹنے کے بعد ایک بے بنیاد مقدمے میں پھانسی دینا، نہ صرف میرے ذاتی تاریخی ریکارڈز کا حصہ ہے بلکہ ناقابلِ فراموش ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے ابھی کل ہی کے واقعات ہوں۔
لڑکپن ہی میں پاکستان کے سیاسی اور تاریخی حالات و واقعات کے گہرے مشاہدے کا یہ عالم تھا کہ "پاک ڈائجسٹ" کے اکتوبر 1977ء کے شمارے کے سرورق پر ایک کشتی کی تصویر بنائی اور سرخی یہ جمائی "ایک کشتی، ملاح سے خالی" یعنی پاکستان، ایک ایسی کشتی ہے جو ملاح (یا لیڈرشپ) سے خالی ہے اور جس کو جنرل ضیاع مردود و ملعون جیسے جابروغاصب، ڈاکو، لٹیرے اور بحری قزاق ہائی جیک کیے ہوئے ہیں۔
"پاک ڈائجسٹ" کے جنوری 1978ء کے شمارے میں سالِ گزشتہ کے اہم واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے ایک اندھیرے میں پانی میں کشتی بنائی اور سرخی یہ جمائی کہ "تاریک رات کے بطن سے جنم لینے والی صبح کیسی ہوگی؟" بدقسمتی سے وہ صبح آج تک طلوع نہیں ہوئی۔۔!
ماہنامہ پاک ڈائجسٹ کھاریاں
کے جنوری 1978ء کے شمارے کا آخری صفحہ
اصولاً "پاک ڈائجسٹ" کے ان تمام شماروں کے مواد کو میگزین کی صورت میں آن لائن کرنا چاہیے تھا لیکن فی الحال مصروفیت اجازت نہیں دے رہیں، زندگی رہی تو پھر سہی۔ البتہ ان شماروں میں مثلاً 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے سرکاری طور پر بیان کیے گئے واقعات درج ہیں، جنھیں ریکارڈز کے لیے محفوظ کیا تھا اور ان شاء اللہ، پاکستان کی تاریخ کے متعلقہ صفحات پر پیش کروں گا۔
"پاک ڈائجسٹ" کا سلسلہ نومبر 1978ء میں منقطع ہونے سے پہلے اپریل 1978ء سے باقاعدگی سے روزانہ کی ڈائری لکھنا شروع کی جو نوے کی دھائی تک جاری رہی۔ اس کے علاوہ سیاسی واقعات پر بھی مختلف ڈائریاں بنانے لگا جو ایک طرح سے موجودہ ویب سائٹ کی ریہرسل تھی۔ ان ڈائریوں میں جہاں بھٹو کی پھانسی کی تفصیل ہے وہاں جنرل ضیاع مردود کے جہنم واصل ہونے کا قصہ بھی ہے۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد خوف و ہراس اور مایوسی و ناامیدی کے عالم میں جہاں پانچ وقتہ نمازی بنا وہاں بڑی تعداد میں مذہبی کتب پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ قرآن حکیم کی تفسیر تو بچپن اور لڑکپن میں پڑھ لی تھی لیکن اس کی صحیح سمجھ 1980 کی دھائی میں آئی جب مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن کو بڑے غوروخوض سے پڑھا۔ اس نے بھی میرے تاریخی شوق کو پروان چڑھایا اور پاکستان اور عالمی تاریخ کے بعد اسلامی تاریخ کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ زندگی رہی تو کبھی اس موضوع پر بھی طبع آزمائی ہوگی، ان شاء اللہ۔۔!
جب پاک میگزین شائع ہوا
پاک میگزین کا اشتہار
1980ء کی دھائی میں یہاں ڈنمارک میں پاکستانی میڈیا میں کچھ عرصہ تک سرگرمِ عمل رہا۔ متعدد پاکستانی تنظیموں اور افراد کے لیے اردو رسالے اور اشتہارات وغیرہ بنائے جن کی کتابت، ترتیب و تدوین اور مضمون نگاری کے علاوہ ایک رسالے کا نام نہاد ایڈیٹر بھی تھا اور اسی حیثیت سے محترمہ بے نظیربھٹو سے 3 جون 1984ء کو ملاقات کرنے کا موقع بھی ملا اور ان کی تقریر کی واحد رپورٹنگ بھی کی جو جس پرچے میں شائع کی، وہ پاکستان میں بین کر دیا گیا تھا۔
میں نے بھی اپنے ذاتی اردو رسالے "ماہنامہ پاک میگزین کوپن ہیگن" کے اگست/ستمبر اور اکتوبر 1985ء کے دو شمارے شائع کیے لیکن سخت ناکامی اور مایوسی ہوئی کیونکہ عام پاکستانیوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہیں ہے اور تاریخ سے تو بہت ہی کم لوگوں کو دلچسپی ہوتی ہے اور جنھیں ہوتی ہے، انھیں بھی اپنی اپنی پسند کی تاریخ سے ہوتی ہے۔ ایک پرچہ شائع کرنے پر محنت و مشقت کے علاوہ اخراجات بھی اٹھتے تھے، ایسے میں یہ کام صرف اور صرف وقت اور سرمائے کا ضیاع تھا۔
ڈینش میڈیا سے بھی گہری دلچسپی کے باوجود کیرئر نہ بنانے کی سب سے بڑی وجہ مقامی میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں سے بغض و نفرت کے علاوہ صحافت کا چار سالہ طویل کورس تھا، جس کی قطعاً گنجائش یا خواہش نہیں تھی اور نہ ہی گھر سے حوصلہ افزائی ہوئی۔
1999ء میں اگر HTMLسے واقفیت نہ ہوتی تو میرا یہ شوق شاید ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا ہوتا۔ آج بھی یہ ویب سائٹ، ایک طالبِ علم کے طور پر بناتا ہوں جس میں پاکستان کی تاریخ کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ علم کو عام اور بے دام ہونا چاہیے چاہے کوئی طالب ہو نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ "پاک میگزین"، آج بھی صرف اور صرف اپنی ذہنی تسکین کے لیے بناتا ہوں کیونکہ بچپن ہی سے ایسے فضول کام کرنے کا شوق رہا ہے جو مرتے دم تک رہے گا۔
پاک میگزین کے اگست/ستمبر اور اکتوبر 1985ء میں اشاعت سے قبل دونوں شماروں کے سرورق
پاک میگزین کا مستقبل
سوشل میڈیا اور ویڈیوز کے اس دور میں گزشتہ ایک دھائی سے ویب سائٹس کی اہمیت کم ہو گئی ہے اور میں بھی پہلے کی طرح سے اپ ڈیٹ نہیں کر پا رہا لیکن حیران ہوتا ہوں کہ آج بھی بہت بڑی تعداد میں وزٹرز میری اس ویب سائٹ کو وزٹ کرتے ہیں۔
صرف گوگل سرچ انجن سے ایک ماہ کے اندر ایک لاکھ سے زائد کلکس آتی ہیں جن سے بننے والے نئے وزٹرز صرف ایک چوتھائی ہیں، باقی مستقل وزٹرز ہیں جنھوں نے بک مارک کیا ہوا ہے اور چوبیس گھنٹے رونق لگی رہتی ہے۔
ویب سائٹ کا یہ شوق، ہمیشہ سے میرے فارغ اوقات کا مشغلہ رہا، کبھی کل وقتی پیشہ نہیں بنا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ایسی کبھی کوشش بھی نہیں کی، اس لیے کبھی ایسی کوئی مجبوری یا محتاجی بھی نہیں رہی کہ یہ ویب سائٹ نہ ہوگی تو کیا ہوگا؟
"پاک میگزین" کے مستقبل کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ خواہش ضرور ہے کہ مرنے سے پہلے پاکستان کی مکمل سیاسی تاریخ کا ڈیٹا بیس مکمل ہوجائے اور اس عظیم پروجیکٹ کو بھی مکمل کر سکوں جس کا خیال عرصہ دراز سے ذہن میں تو ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فی الحال ہمت اور وقت نہیں ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے ایک اور بڑے پروجیکٹ پر کام کررہا ہوں جس سے مجھے ہمیشہ سے بڑی گہری دلچسپی رہی ہے لیکن چند برسوں سے اس پر ویب سائٹ بنانے کا جنون سوار رہا ہے، ان شاء اللہ، جلد ہی رزلٹ سامنے آنے والا ہے۔
پاک ڈائجسٹ کے چند شمارے
1970 کی دھائی یا اپنے لڑکپن یا ٹین ایج کے دور میں اپنے سکول کی کاپیوں کے صفحات پر بنائے گئے "پاک ڈائجسٹ" کو بھی آج اپنی ویب سائٹ کی طرح تن تنہا اپنے فارغ اوقات میں اپنے (اس وقت کے علم اور قابلیت کے مطابق) بناتا تھا۔ ان میں سے بیشتر مواد ڈنمارک سے پاکستان نقلِ مکانی میں ضائع ہوگیا اور جو بچ گیا، ان شماروں کے سرورق کچھ اس طرح سے تھے:
ماہنامہ پاک ڈائجسٹ کوپن ہیگن/کھاریاں کے 1975 سے 1978 تک کے شمارے
Pak Magazine
Thursday, 24 October 2024
Pak Magazine is celebrating its 25th silver jubilee year on October 24, 2024..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
22-09-1965: بھٹو کی مسئلہ کشمیر پر تاریخی تقریر
02-03-2012: 2012ء کے سینٹ انتخابات
16-12-2014: سکول بچوں کےخلاف دہشت گردی