پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
ہفتہ 18 اگست 2018
عمران خان
18 اگست 2018ء کو عمران خان نے پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔۔!
جب RTS نظام نے جادو کردکھایا۔۔!
2018ء کے انتخابات میں نتائج کو آن لائن مرتب کرنے والے جدید ترین کمپیوٹر سسٹم ، آر ٹی ایس (Results Transmission System) کے کریش ہونے اور نتائج تاخیر سے دینے کے باوجود عمران خان کو سادہ اکثریت بھی نہ دلائی جا سکی۔ پنجاب سے نواز لیگ اور کراچی سے ایم کیو ایم کے وؤٹ توڑے گئے ، آزاد امیدواروں کو ساتھ ملایا گیا لیکن پھر بھی مقتدر حلقوں کی مخصوص جماعتوں یعنی قاف لیگ ، ایم کیو ایم ، بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کی مدد سے ایک مخلوط حکومت بنوانا پڑی جسے ایک پیج پر لانے کا پورا پورا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔
عمران خان کو سیاست میں کون لایا؟
عمران خان ، پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین کرکٹ کھلاڑی اور بلاشبہ ایک قومی ہیرو تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے 1992ء میں وولڈ کپ جیتا تھا۔ لاہور میں بنائے گئے ایک کینسر ہسپتال اور ضلع میانوالی میں نمل کالج نامی تکنیکی کالج کی وجہ سے بھی عالمی پہچان رکھتے تھے۔ ان کی اس غیرمعمولی شہرت کو کیش کروانے کے لیے 1987ء میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاع مردود نے بے نظیربھٹو کے مقابلے میں عمران خان کو سیاست میں آنے کی پیش کش کی تھی۔ یہی آفر 1992ء کے وؤلڈ کپ کے بعد اس وقت کے وزیراعظم میاں محمدنواز شریف نے بھی دی تھی لیکن انھوں نے معذرت کرلی تھی۔
عمران خان کی سیاست کا آغاز کہاں سے ہوا؟
عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1994ء کے آخر میں ISI کے سابق سربراہ حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں "پاسبان" نامی ایک پریشر گروپ میں شمولیت سے ہوا۔ 1993 میں ایک امپورٹڈ وزیراعظم معین قریشی کی تین ماہ کی نگراں حکومت میں "سفیرِ سیاحت" مقرر ہوئے جو ایک وزیر کا عہدہ تھا۔ 1995ء میں مبینہ طور پر ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نے انہیں سیاسی کیرئر شروع کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔
سیاسی جدوجہد کا آغاز
25 اپریل 1996ء کو عمران خان نے اپنی الگ سیاسی جماعت ، پاکستان تحریک انصاف قائم کی۔ 1997ء کے پہلے انتخابات میں شرکت کی لیکن کوئی سیٹ نہ مل سکی۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے نواز شریف کا تختہ الٹنے کے غیرآئینی اقدام کی حمایت کی۔ 2002ء میں مبینہ طور پر وزیراعظم بننے کی پیشکش ہوئی۔ اسی سال انھوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت بھی کی تھی۔ 2002ء کے انتخابات میں ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف صرف ایک سیٹ جیت سکی تھی جو ان کی اپنی تھی۔ 2007ء میں مشرف کے ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد چند دن قید بھی رہے۔ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن 2013ء کے انتخابات میں بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود صرف 32 سیٹیں جیت سکے البتہ خیبرپختونخواہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر مخلوط صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب رہے تھے۔
احتجاجی سیاست کا آغاز
2014ء میں عمران خان نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف طویل احتجاجی مہم شروع کی اور مبینہ انتخابی دھاندلیوں اور کرپشن کے خلاف منہاج القرآن کے مذہبی رہنما طاہرالقادری کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر 126 دنوں کا مشہورزمانہ دھرنا دیا لیکن حکومت نہ گرا سکے البتہ اپریل 2016ء میں "پانامہ پیپر سکینڈل" کے نتیجے میں نواز شریف کی عدالت عالیہ کی طرف سے برطرفی نے عمران خان کو نئی سیاسی زندگی دی تھی۔
عمران خان بطور وزیر اعظم
25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں ان کی سیاسی پارٹی ، تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 342 سیٹوں میں سے 116 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا لیکن سادہ اکثریت بھی نہ حاصل کرسکے تھے۔ انھیں ایک کروڑ 69 لاکھ وؤٹ ملے تھے جو کل ڈالے گئے وؤٹوں کا 32 فیصد تھے۔ عمران خان ، پانچ نشستوں سے جیتے تھے۔ 22 سالہ جدوجہد کے بعد 18 اگست 2918ء کو پاکستان کے 22ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ پارلیمنٹ میں وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں البتہ 176 وؤٹ ملے جبکہ ان کے مدمقابل شہباز شریف کو 96 وؤٹ مل سکے تھے۔
عمران خان کا کرکٹ کیرئر
عمران خان ، 1976ء سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے مستقل رکن تھے اور ایک کامیاب ترین کرکٹ آل راؤنڈر ثابت ہوئے تھے۔ وہ ایک کامیاب کرکٹ کپتان بھی تھے لیکن 1987ء کے کرکٹ وؤلڈ کپ میں ناکامی کے بعد دل برداشتہ ہوکر ریٹائر ہوگئے تھے۔ جنرل ضیاع کے اصرار پر واپسی ہوئی تھی۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار بھارت کو بھارت میں اور انگلینڈ کو انگلینڈ میں ٹیسٹ میچوں میں شکست دی تھی۔ ان کا آخری میچ 25 مارچ 1992ء کو آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں پاکستان اور انگلینڈ کے مابین کھیلا گیا کرکٹ وؤلڈ کپ کا فائنل تھا جس میں شاندار کامیابی سے پاکستان پہلی اور اب تک آخری بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا تھا۔
عمران خان کی ذاتی زندگی
عمران احمد خان نیازی کی پیدائش 5 اکتوبر 1952ء کو لاہور کے ایک متمول پشتون قبیلے نیازی میں ہوئی تھی۔ وہ ، چار بہنوں کے اکلوتے بھائی اور انجنیئر اکرام اللہ خان نیازی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ والدہ شوکت خانم ، میانوالی کے ایک پشتون قبیلے "برکی" سے تعلق رکھتی تھیں جن کے دو بھانجے جاوید برکی اور ماجد خان ، پاکستانی کرکٹ ٹیم کے نامور کھلاڑی تھے۔ یاد رہے کہ جاوید برکی ، جنرل واجد علی برکی کے بیٹے تھے جو 1958ء میں جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں صحت اور سماجی بہبود کے وزیر تھے جبکہ ماجد خان کے والد جہانگیر خان نے 1936ء میں لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر اپنی تیز بالنگ سے ایک چڑیا کو ماردیا تھا جو آج تک حنوط شدہ حالت میں محفوظ ہے۔ روایت ہے کہ 16ویں صدی میں ان کے آباؤ اجداد میں ہیبت خان نیازی، شیر شاہ سوری کے معزز جنرل اور پنجاب کے گورنر تھے جن کی مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال زرعی اراضی بھی تھی۔
عمران خان کا تعلیمی کیرئر
عمران خان نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچی سن کالج اور کیتھڈرل اسکول سے حاصل کی تھی۔ اسی دوران انھوں نے 1969ء میں لاہور کی طرف سے سرگودھا کے خلاف اپنا پہلا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ میں ووسٹر کے رائل گرائمر اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات ، فلسفہ اور معاشیات کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی۔ دوران تعلیم 19 سال کی عمر میں انھوں نے 1971ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف برمنگھم میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔ وہ 1974ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔
عمران خان کی ازدواجی زندگی
1995ء میں عمران خان نے ایک برطانوی ارب پتی تاجر سر جیمز گولڈ سمتھ کی بیٹی ، جمائما خان سے شادی کی جو 2004ء تک رہی تھی۔ ان سے ان کے دو بیٹے قاسم اور سلیمان ہیں۔ جنوری 2015ء میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی صحافی ریحام خان سے دوسری شادی کی جو اکتوبر تک چل سکی۔ 2018ء میں پاک پتن سے تعلق رکھنے والی اپنی ایک "روحانوی پیشوا" پانچ بچوں کی ماں اور خاور مانیکا کی منکوحہ بشریٰ بی بی سے خفیہ شادی کی جو میڈیا میں آنے کے بعد ظاہر کی۔ ان کے علاوہ عمران خان کے دیگر معاشقوں کے علاوہ ان کی ایک ناجائز بیٹی ٹیریان وائٹ کا ذکر بھی ملتا ہے۔
Imran Khan as Prime Minister
Saturday, 18 August 2018
Pakistan Tehrik-e-Insaf chairman Imran Khan became 22nd Prime Minister of Pakistan on August 18, 2018..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
01-12-1970: جنرل یحییٰ کی ہوس اقتدار
17-02-1960: بنیادی جمہوریتیں
01-07-1977: بھٹو کی حقیقت پسندی