پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات 2 جولائی 2020
احمد رضا قصوری
احمدرضا قصوری ، ذوالفقارعلی بھٹوؒ کا قاتل تھا۔۔!
احمدرضا قصوری ، 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تھا۔ وہ ، بھٹو کے ابتدائی سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھا۔
فروری 1971ء میں پاکستان میں آئینی بحران پیدا ہوا جس کہ وجہ یہ تھی کہ ایک طرف فوجی حکمران اپنی مرضی کا آئین چاہتے تھے اور دوسری طرف بھٹو تمام صوبوں کے لئے ایک قابل قبول آئین کے حامی تھے۔ لیکن اکثریتی پارٹی کا لیڈر شیخ مجیب الرحمان ، صرف اپنی مرضی کا آئین مسلط کرنا چاہتا تھا جس میں کسی دوسری سیاسی پارٹی یا فرد سے مشورہ تک کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایسی نااتفاقی میں پیپلز پارٹی نے 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا جس میں مغربی پاکستان کی نو میں سے چار منتخب سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔
قصوری کی بغاوت
احمد رضا قصوری ، اپنی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے طور پر اسمبلی کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ چلا گیا تھا۔ واپسی پر اس سے باز پرس ہوئی۔ اس کی ہٹ دھرمی اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ موصوف نے دوسرے ہی دن پریس کانفرنس کر کے چیئرمین بھٹو کو پیپلز پارٹی سے نکال دیا تھا جس پر اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
6 جون 1971ء کو احمد رضا قصوری کو باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔۔!
آئین کا "فاؤنڈنگ فادر"
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قصوری صاحب ، اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر اپنے طور پر ضمنی انتخابات میں منتخب ہو کر آتے لیکن اتنی اخلاقی جرات کہاں تھی۔ وہ ، پیپلز پارٹی کا بھگوڑا تھا لیکن ائرمارشل اصغرخان کی سیاسی پارٹی تحریک استقلال میں شامل ہو کر قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر بھٹو کے زبردست ناقدین میں شمار ہونے لگا اور بڑی توہین آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر کیا کرتا تھا۔ بغض اور عداوت کا یہ عالم تھا کہ جب 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور ہوا تو قصوری ، ان تین اراکین میں سے ایک تھا جس نے اپنے وؤٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود بددیانتی کا یہ عالم ہے کہ وہ خود کو آئین کا فاؤنڈنگ فادر ثابت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔۔!
وقت کے وزیراعظم کے خلاف FIR
11 نومبر 1974ء کو احمد رضا قصوری کا باپ نواب احمد خان قصوری ایک قاتلانہ حملہ میں ہلاک ہوا تو موصوف نے لاہور کے اچھرہ تھانہ میں قتل کی ایف آئی آر وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف درج کروا دی تھی جو پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ اور ایک جمہوری دور کی یاد ہے۔ 26 فروری 1975ء کو اس مقدمہ کی کاروائی کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں عدم ثبوت کی بنیاد پر یہ مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا تھا۔
5 جولائی 1977ء کو بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد جب اسے "مقام عبرت" بنانے کا عمل شروع ہوا تھا تو اسی مقدمہ میں اسے پھانسی دی گئی تھی حالانکہ ثبوت کوئی نہیں تھا اور تمام تر انحصار وعدہ معاف گواہوں پر تھا جو خود ایک انتہائی مشکوک عمل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پانچ میں سے چار وعدہ معاف گواہوں کو بھی احتیاطاَ پھانسی دے دی گئی تھی تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پانچواں اور بڑا وعدہ معاف گواہ مسعودمحمود تب سے اب تک لاپتہ ہے۔ بقول سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس جاوید اقبال (مرحوم) کے ، اس مقدمہ میں بھٹو کی پھانسی کی سزا بنتی ہی نہیں تھی اور ایسے مقدمہ میں پھانسی پانے والے وہ واحد شخص ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف خود احمد رضا قصوری بھی کرتا ہے۔
باپ کے قاتل کی پارٹی میں دوبارہ شمولیت
احمد رضا قصوری کتنا باضمیر شخص ہے ، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوبارہ ممبر اسمبلی منتخب ہونے کی ہوس میں بڑی تگ و دو اور منت سماجت کے بعد بیگم نصرت بھٹو کی سفارش پر 7 اپریل 1976ء کو ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے میں کامیاب ہوا۔ گویا اس نے ایک ایسے شخص کو ایک بار پھر اپنا قائد تسلیم کرلیا تھا جو مبینہ طور پر اس کے باپ کا قاتل تھا۔ یکم جنوری 1977ء کو اس نے بھٹو کی خوشامد اور چاپلوسی پر مبنی تقریر کی تھی لیکن بھٹو صاحب نے درخوراعتنا نہیں سمجھا اور پارٹی ٹکٹ نہیں دیا تھا جس پر وہ پھر بھٹو کا دشمن بن گیا تھا۔
ذلت و خواری
احمد رضا قصوری ، سابق فوجی آمر جنرل مشرف کی ٹانگہ پارٹی میں بھی شامل تھا اور وہاں سے بھی نکالا گیا۔ وہ ، ڈکٹیٹر کے غداری کے مقدمہ میں وکیل بھی رہا اور بیماری کے بہانے اسے ملک سے فرار کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا تھا کہ بھگوڑا اور غدار آمر وطن واپس کب آئے گا تو موصوف کا بڑا طنزیہ جواب تھا کہ "جب کشمیر آزاد ہوگا۔۔!"
احمد رضا قصوری ، اپنی بدکلامی اور تند مزاجی کی وجہ سے اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں خاصا ذلیل و رسوا ہوتا رہا ہے۔ ایک بار اس کا منہ بھی کالا کیا گیا تھا۔ اپنی غیر سنجیدہ حرکتوں اور بے سروپا باتوں کی وجہ سے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور نہ ہی پاکستان کی تاریخ یا سیاست میں اس کی کبھی کوئی اہمیت یا حیثیت رہی ہے۔ احمد رضا قصوری کا جب بھی کبھی اور کہیں ذکر ہوگا تو صرف "بھٹو کے قاتل" کے طور پر ہی ہوگا۔۔!
Ahmad Raza Kasuri
Thursday, 2 July 2020
An interview of Ahmad Raza Kasuri..
Ahmad Raza Kasuri (video)
Credit: Ijaz Ul Haq Official
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
14-10-1955: ریاست قلات
31-03-2022: صدرِ پاکستان
16-12-1957: ملک فیروز خان نون