پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
ہفتہ 26 جون 2004
چوہدری شجاعت حسین
چوہدری شجاعت حسین کے مشہورزمانہ تاریخی جملے "روٹی شوٹی کھاؤ" تے "مٹی پاؤ" نہ صرف ان کی اور ان کی سیاسی پارٹی قاف لیگ کی سیاست کے ترجمان ہیں بلکہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کا خلاصہ بھی ہیں۔۔!
روٹی شوٹی کھاؤ تے مٹی پاؤ
پنجابی زبان کے ان سادہ مگر پرمغز جملوں "روٹی شوٹی کھاؤ" تے "مٹی پاؤ" کا آسان ترین اردو ترجمہ "کھاؤ پیو اور بھول جاؤ" بنتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چوہدری صاحب کو پاکستان کی سیاست میں "لوٹوں کا شہنشاہ" بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے بندے رہے اور ان کی خالص پنجابی سیاست "تیل دیکھ ، تیل کی دھار دیکھ" یا "جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس" کے مصداق رہی۔ کم سے کم منڈیٹ میں زیادہ سے زیادہ سیاسی اثرورسوخ حاصل کرنا ان کا کمال رہا ہے۔ ان کا وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنا اور ان کے کزن چوہدری پرویز الہٰی کا وزیراعلیٰ پنجاب اور نائب وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنا ان کی انھی خوبیوں کا مظہر ہے۔
سیاسی کیرئر کا آغاز
چوہدری شجاعت حسین نے سیاسی کیرئر کا آغاز 1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے گئے انتخابات سے کیا۔ جونیجو حکومت میں انھیں وزیر صنعت ، وزارت اطلاعات اور دفاعی پیداوار کی وزارت ملی۔ اس دوران انھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے بھی کوششیں کی لیکن مقتدرحلقوں نے اپنے اس وقت کے چہیتے میاں محمد نوازشریف کو ترجیح دی تھی۔ اس کٹھ پتلی حکومت کو فوجی آمر جنرل ضیاع مردود نے کرپشن کے روایتی الزامات لگا کر مئی 1988ء میں برخاست کردیا تھا۔
1988ء میں جب سپریم کورٹ کے حکم پر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے تو پیپلز پارٹی کے خوف سے اسٹیبلشمنٹ نے ملکی خزانے سے بھٹو مخالف سیاسی اتحاد بنوایا جو اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے سامنے آیا لیکن شکست کھا گیا۔ چوہدری صاحب ، اس اتحاد اور اس کو بنانے والوں کے تاحیات وفادار اور فرمانبردار رہے۔
1990ء کے نام نہاد انتخابات میں جب اس مصنوعی اتحاد کو جتوایا گیا تو نواز شریف کو پہلی بار وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ چوہدری صاحب کو اس حکومت میں وزیرداخلہ کا عہدہ تفویض ہوا۔ 1997ء میں مسلم لیگ کا صدر بھی بنایا گیا لیکن مئی 1999ء میں کارگل کی متنازعہ جنگ میں اپنے وزیراعظم نواز شریف کے بجائے آرمی چیف پرویز مشرف کے ہم خیال بن گئے جنھوں نے اسی سال دو تہائی اکثریت رکھنے والی نواز حکومت کو برطرف کردیا تھا۔
قاف لیگ کا قیام
20 نومبر 2000ء کو مسلم لیگ کے "ہم خیال گروپ" نے چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ (قائداعظمؒ گروپ) کی شکل میں نواز شریف سے راہیں جدا کیں۔ 10 اکتوبر 2002ء کے ڈھونگ انتخابات میں قاف لیگ کو سب سے بڑی پارٹی بنا دیا گیا لیکن پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی میں نقب لگا کر "فارورڈ بلاک" بنانا پڑا۔ بلوچستان سے انصاف کرنے کے لیے ایک بلوچی ، ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم چنا گیا۔ اصل اختیارات تو ڈکٹیٹر مشرف ہی کے پاس تھے۔
2008ء کے انتخابات میں قاف لیگ کا منڈیٹ ایک تہائی رہ گیا تھا۔ چوہدری شجاعت حسین ، گجرات سے اپنے آبائی حلقے سے بھی ہار گئے تھے لیکن سیاسی مفادات کے لیے انھوں نے اپنے نظریاتی حریف پیپلز پارٹی کی حکومت کا ساتھ دیا اور بدلے میں اپنے کزن چوہدری پرویز الہٰی کو نائب وزیراعظم بنوایا تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کو صرف 2 سیٹیں مل سکیں۔ 2018ء کے انتخابات میں 4 سیٹیں تھیں لیکن عمران خان کا ساتھ دینے کے نتیجے میں پنجاب میں ان کے کزن سپیکر بنے اور وزیراعلیٰ بننے کی پوری پوری کوشش میں رہے۔
حلالہ وزیراعظم
جنرل مشرف نے 26 جون 2004ء کو اپنے نامزد کٹھ پتلی وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی کی امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ سے بلا اجازت تنہائی میں روبرو ملاقات جیسی گستاخی پر فوری طور پر استعفیٰ طلب کر لیا تھا۔ ایسے میں اگلے مہرے شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کے لیے اسے قومی اسمبلی کا ممبر بنانا ضروری تھا۔ اس کے لیے ضمنی انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا اور ایک بار پھر اپنے من پسند شخص کو جتوا کر پاکستان کا وزیراعظم بنایا گیا۔ اس دوران 30 جون سے 25 اگست 2004ء تک چوہدری شجاعت حسین کو "درمیانی مدت" کا وزیراعظم بنایا گیا تھا جسے عوامی زبان میں طنزیہ "حلالہ وزیراعظم" بھی کہا جاتا تھا۔
چوہدری شجاعت حسین کا پس منظر
چوہدری شجاعت حسین ، 27 جنوری 1946ء کو گجرات کے ایک پنجابی جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ گجرات کے سرکاری اسکولوں سے میٹرک کیا۔ فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی سے 1965 میں بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ساتھ گریجویشن کیا اور برطانیہ میں انڈسٹریل مینجمنٹ میں ایم اے کیا۔ وہ ایک بہت بڑے صنعتی گروپ کے مالک بھی ہیں۔
چوہدری ظہور الہٰی
چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہورالہٰی ایک کامیاب بزنس مین لیکن ایک ناکام علاقائی سیاستدان اور روایتی "لوٹے" تھے جنھوں نے پہلے ایک درباری جماعت ری پبلیکن پارٹی ، پھر جنرل ایوب خان کی سرکاری جماعت کنونشن مسلم لیگ اور پھر اس کی ضد ، کونسل مسلم لیگ میں بھی اپنی مفاد پرستانہ سیاست چمکائی۔ بھٹو دشمنی سے پہلے ان کے بہت قریب تھے اور انتہائی خوشامدی اور موقع پرست تھے۔ 1971ء کے سیاسی بحران میں جب ڈھاکہ میں بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو ان کی پارٹی کونسل مسلم لیگ بھی ان کی ہمنوا تھی۔ چوہدری صاحب پر خاص طور پر مشہور زمانہ "بھینسیں چرانے" کے کیس بنوانے کے مضحکہ خیز الزامات بھی بھٹو پر لگائے جاتے ہیں جس سے ایسے لوگوں کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
چوہدری ظہورالہٰی ، اپنی ناکام اور غیر اہم سیاسی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فوجی آمر جنرل ضیاع مردود کی کابینہ میں وزیر محنت کے عہدے تک پہنچے تھے۔ 25 ستمبر1981ء کو "الذوالفقار" نامی ایک دہشت گرد تنظیم کی گولی کا شکار بن گئے تھے۔
Chaudhry Shujaat Hussain
Saturday, 26 June 2004
Chaudhry Shujaat Hussain was a temporary Prime Minister of Pakistan in 2004..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
04-04-2008: بھٹو کے عدالتی قتل پر جسٹس جاوید اقبال کی رائے
25-11-1974: حمودالرحمان کمیشن رپورٹ
09-08-1976: بھٹو کو کسنجر کی دھمکی