پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعتہ المبارک 24 اکتوبر 1947
مسئلہ کشمیر
24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے صرف دو دن بعد 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا تھا۔۔!
3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل ہونا تھے لیکن ریاستوں کے بارے میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوں گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے گیارہ صوبے تو براہ راست برطانوی اختیار میں تھے لیکن 562 ریاستیں اندرونی طور پر خودمختار تھیں جنھیں یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ چاہیں تو آزاد رہیں یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک میں ضم ہو جائیں۔
آزادی کشمیر کا آغاز
قیام پاکستان کے بعد درجن بھر ریاستیں ، پاکستان میں شامل ہوئی تھیں لیکن 70فیصد مسلم اکثریتی آبادی کی ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے حیل و حجت سے کام لیا جس سے پاکستان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی خواہش تھی کہ کشمیر ان کے پاس ہو جبکہ 95فیصد کشمیری مسلمانوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونے کی امید تھی۔
28 جولائی 1947ء کو ڈوگرا ریاست کے خلاف آزادی کی مسلح تحریک شروع ہوگئی جس میں زیادہ تر قبائلی علاقوں کے جنگجو تھے جنھیں پاک فوج کا بھرپور غیرسرکاری تعاون حاصل تھا۔ روایت ہے کہ سردارعبدالقیوم خان نے اس دن تین ڈوگرا سپاہی مار کر جنگ آزادی کا آغاز کیا تھا۔ جموں کے مغربی اضلاع میں باغی افواج کو مسلم کانفرنس کے رہنما سردار ابراہیم کی قیادت میں منظم کیا گیا جنھوں نے 22 اکتوبر 1947ء تک ریاست کے بیشتر مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 24 اکتوبر کو آزاد کشمیر کی عارضی حکومت قائم کردی گئی تھی۔
جنرل گریسی کا قائداعظمؒ کا حکم ماننے سے انکار
مجاہدین کی پے درپے کامیابیوں سے ڈوگرہ افواج سری نگر تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ خود کو بچانے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست کی تھی۔ 26 اکتوبر 1947ء کو یہ معاہدہ ہوا اور اگلے ہی دن بھارت نے اپنی فوج ، وادی میں اتار دی تھی۔
قائد اعظمؒ نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور بھارتی فوجی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوری فوجی کاروائی کا حکم دے دیا تھا لیکن اس نے یہ حکم ماننے کے بجائے پاک بھارت افواج کے مشترکہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل جنرل Claude Auchinleck کو شکایت کردی تھی۔ وہ دوسرے ہی دن لاہور آئے تھے اور قائداعظمؒ کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔ جنرل آوکن لیک کا موقف تھا کہ ان کی کمانڈ میں دونوں افواج کیسے لڑیں گی اور اگر ایسا ہوا بھی تو پاک فوج وسائل کی کمیابی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اس کے باوجود پاک فوج درپردہ کشمیر کے مجاہدین کی مدد کرتی رہی۔
قائداعظمؒ اور کشمیر
15 ستمبر 1947ء کو ریاست جوناگڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا جو قائداعظمؒ نے قبول کرلیا تھا۔ انھیں یہ بھی توقع تھی کہ بھارت کے جنوب میں واقع ریاست حیدرآباد کے علاوہ شمال کی ریاست کشمیر بھی پاکستان میں شامل ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مبینہ طور پر جولائی 1947ء میں قائداعظمؒ نے مہاراجہ کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونے کی پرکشش دعوت دی تھی لیکن انھوں نے انکار کردیا تھا۔
یکم نومبر 1947ء کو سابق وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن (جو اس وقت بھارت کے گورنر جنرل تھے) کی لاہور میں گورنرجنرل پاکستان قائداعظمؒ کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ متنازعہ ریاستوں یعنی حیدرآباد دکن ، جوناگڑھ اور کشمیر میں غیرجانبدارانہ استصواب رائے کروایا جائے کہ وہ کن دو ممالک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں لیکن قائداعظمؒ نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔
مسئلہ کشمیر ، اقوام متحدہ میں
یکم جنوری 1948ء کو بھارت کے وزیراعظم نہرو ، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اقوام عالم ، بھارت اور کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرے گا اور پاکستان کو جارح قرار دے گا۔ 21 اپریل 1948ء کو کشمیر پر ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی فوجوں یا مسلح گروپوں کو کشمیر سے نکالیں تو وہاں استصواب رائے ہوسکتا ہے۔ یہ شرط دونوں فریقین ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔ یہ کامیابی البتہ ضرور ہوئی تھی کہ یکم جنوری 1949ء کو کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی تھی۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370
26 جنوری 1950ء کو منظور ہونے والے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی جس کے آرٹیکل 370 میں یہ کہا گیا تھا کہ
- یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ ریاست کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے قوانین کے اطلاق میں متفق ہونا چاہیے، سوائے ان کے جو مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق ہوں۔ مرکزی حکومت ریاست کے نظم و نسق کے کسی دوسرے شعبے میں مداخلت کرنے کے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔
جنوری 1951ء میں دولت مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں بھی کشمیر کے مسئلہ پر برطانیہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر میں پاک بھارت مشترکہ فوج کی نگرانی میں استصوائے رائے کروایا جائے۔ پاکستان نے اس تجویز کو مان لیا تھا لیکن بھارت نے رد کردیا تھا۔
نہرو کا یوٹرن
24 جولائی 1952 کو بھارتی وزیر اعظم نہرو اور کشمیر کے وزیراعلیٰ شیخ محمدعبداللہ کے درمیان ایک ملاقات میں اس آئینی شق کا اطلاق ہوا تھا لیکن 1953ء میں شیخ صاحب کا ضمیر جاگا اور انھوں نے بھارتی حکومت سے بغاوت کردی جس پر انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسی سال جولائی میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پینترا بدلا اور کشمیر میں ریفرنڈم کروانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ پاکستان کی یہ خوشی مختصر رہی کیونکہ 1954ء میں جب امریکہ نے ایک طویل المدتی معاہدے کے تحت پاکستان کو بھاری فوجی اور اقتصادی امداد دینا شروع کی تو نہرو نے یوٹرن لے لیا اور کشمیر میں ریفرنڈم کروانے سے صاف مکر گیا تھا۔
پاک بھارت کشمیر مذاکرات
1962/63 میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر مذاکرات کے چھ راؤنڈ ہوئے تھے جن کی قیادت بھارت سے وزیرخارجہ سورن سنگھ اور پاکستان سے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ کررہے تھے۔ 1965ء میں پاکستان نے بزور کشمیر آزاد کروانے کی ناکام کوشش کی۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی شکست سے مایوس ہو کر کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے 1975ء میں بھارت سے الحاق کرلیا تھا۔ 1980ء کی دھائی سے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر جنگجو کاروائیاں ہوئیں لیکن بھارت نے ان پر قابو پالیا۔ 1984ء میں بھارت نے سیاچین گلیشئر پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ 1999ء میں کارگل کی جنگ بھی کشمیر کا حل نہ بن سکی۔ 2020ء میں بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور ریاست کو بھارتی یونین میں ضم کرلیا تھا ، تب سے اب تک سکون ہے اور بظاہر مسئلہ کشمیر ختم ہوچکا ہے۔
کشمیر کی تاریخ
افغان حکمران نادر شاہ درانی نے 1752ء میں کشمیر کو فتح کیا۔ 1819ء میں پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ جموں کے ڈوگرا خاندان کے راجہ گلاب سنگھ نے 1840ء میں کشمیر پر قبضہ کیا۔ 1946ء میں انگریزوں نے کشمیر کو فتح کیا لیکن گلاب سنگھ کے ہاتھوں بیچ دیا تھا جس کا ڈوگرا خاندان 1947ء تک کشمیر کا حاکم رہا۔
ریاست کشمیر ، ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کشمیر کی آبادی میں 77 فیصد مسلمان، 20 فیصد ہندو اور 3 فیصد دیگر (سکھ اور بدہست) تھی۔ مسلمان صرف وادی کشمیر میں 95 فیصد ہیں جبکہ جموں اور لداخ میں بالترتیب ہندوؤں اور بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ پاکستان کے کشمیر اور گلگت و بلتستان میں البتہ مسلمان سو فیصدی ہیں۔ اسوقت ریاست کشمیر کا بھارت کے پاس 55 فیصد ، پاکستان کے پاس 30 فیصد اور چین کے پاس 15 فیصد علاقہ ہے۔
Kashmir issue
Friday, 24 Otober 1947
Kashmir is a disputed area between Pakistan and India..
Kashmir issue (video)
Credit: travelfilmarchive
Credit: British Movietone
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
11-09-1958: پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات
25-04-1996: پاکستان تحریکِ انصاف
25-12-1915: پنجاب کا نہری نظام