PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Friday, 17 May 2024, Day: 138, Week: 20

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

ہفتہ 11 ستمبر 1948

قائداعظمؒ کے اثاثے

قائداعظمؒ کے اثاثے
ممبئی کے پوش علاقے مالا بار میں جناح ہاؤس

قائداعظمؒ ، کھرب پتی تھے۔۔!

2020ء میں ایک محقق اور بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ’محمد علی جناح ، دولت ، جائیداد ، وصیت‘ میں قائداعظمؒ کے اثاثوں کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے مطابق دورحاضر میں ان کی مالیت دو ارب ڈالر سے زائد یا ساڑھے تین کھرب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

عام طور پر تاریخی کتابوں یا مضامین میں کسی بھی مصنف کی ذاتی رائے یا خیالات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان میں پیش کیے گئے اعدادوشمار بھی سو فیصدی معتبر نہیں ہوتے لیکن قابل توجہ ضرور ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل معلومات اسی تناظر میں محفوظ کی جارہی ہیں۔

قائداعظمؒ کا شمار ہندوستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1900ء میں پریزیڈنسی مجسٹریٹ کے طور پر ان کی ماہانہ تنخواہ اس وقت کے 1.500 روپے ہوتی تھی جو ایک بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ ان کا معیار زندگی ، عمربھر شاہانہ رہا۔ بسترمرگ پر بھی قیمتی تھری پیس سوٹ پہنتے تھے۔ ریشمی ٹائی جو ایک بار استعمال کرتے ، دوبارہ پھر کبھی نہ کرتے۔ مہنگی ترین جدید ماڈل کی گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ ایک بار تعطیلات کے لیے سری نگر کی ڈل جھیل گئے تو وہاں ان کی بیگم رتی جناح نے صرف ایک ہفتہ میں تیرتی ہوئی کشتی کی تزئین و آرائش پر 50 ہزار روپے خرچ کر دیے تھے۔ اس رقم سے اسوقت کراچی یا لاہور کے پوش ایریا میں چار کنال کا ایک بنگلہ مل جاتا تھا۔

قائداعظمؒ ، بمبئی کے ایک مہنگے ترین وکیل تھے اور اپنے اس پیشے سے انہوں نے جو بے تحاشا دولت کمائی ، اس سے بھرپور سرمایہ کاری بھی کی تھی۔ 1920ء کی دھائی تک ہندوستان کے دس چوٹی کے امیرترین اور سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے تھے۔ ان کےمبینہ اثاثوں کی ایک فہرست کچھ اس طرح سے ہے:

قائداعظمؒ کی سرمایہ کاری

  • 1926 میں بمبئی ڈائنگ ، ٹاٹا سٹیل اور ٹرام وے کمپنی میں ان کے حصص کی مالیت 14 لاکھ روپے تھی جو آج کی کرنسی کے حساب سے 68 کروڑ روپے بنتی ہے۔
  • قائداعظمؒ نے 36 برس کی عمر میں ہی مختلف کمپنیز کے حصص خریدنے شروع کر دیے تھے۔ انہوں نے سمپلیکس مل میں ایک لاکھ 25 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی اور مل کے تیسرے بڑے شیئر ہولڈر تھے۔
  • 1927 تک قائداعظمؒ ، 11 بڑی کمپنیوں کے حصص کے مالک بن چکے تھے۔ جہاں سے انھیں سالانہ اچھی خاصی رقم بطور منافع مل رہی تھی۔
  • 1943 سے 1945 کے درمیان آپ نے مختلف صنعتوں میں 8 لاکھ روپوں سے زائد کی سرمایہ کاری کی۔

قائداعظمؒ کی جائیدادیں

قائداعظم ، اس زمانے میں کراچی ، بمبئی، دہلی اور لاہور میں پرائم لوکیشنز پر انتہائی قیمتی جائیدادوں کے مالک بھی تھے۔

قائداعظمؒ کی بمبئی میں جائیدادیں

  • بمبئی میں ساحل سمندر پر 15 ہزار 476 مربع گز پر ایک شاندار بنگلہ جو ساؤتھ کورٹ کہلاتا تھا ، انھوں نے 1916ء میں سر آدم جی سے سوا لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ 1918 میں اپنی شادی کے موقع پر یہ بنگلہ اپنی اہلیہ رتی جناح کو تحفہ میں دے دیا تھا۔
  • بمبئی میں لٹل گبز روڈ پر واقع ایک بنگلہ اور اس کے ساتھ چار منزلہ عمارت مے فیئر فلیٹ نامی خریدی جس میں آٹھ فلیٹس تھے۔ یہ عمارت انہوں نے منو چہر رستم جی سے 3 لاکھ آٹھ ہزار روپے میں خرید کر کرائے پر چڑھا دی تھی۔ 1943 میں اس جائیداد کو 10 لاکھ روپے میں فروخت کر کے کراچی اور لاہور میں جائیدادیں خریدی تھیں۔
  • بمبئی میں مالابار ہلز کے پوش علاقے میں 1936 میں انہوں نے ایک پرانی عمارت کو گرا کر ایک اطالوی کمپنی سے ایک عالیشان بنگلہ بنوایا جس پر اس زمانے میں سوا دو لاکھ روپے لاگت آئی تھی اور یہ سوا تین سال میں مکمل ہوا تھا۔ اس محل میں 22 ملازمین ان کی خدمات پر معمور تھے۔ مئی 1947 میں عراقی قونصل خانہ نے اسے 18 لاکھ روپوں میں خریدنے کی پیشکش کی تاہم قائداعظم اس کے 25 لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔
    یہ جائیداد جو "جناح ہاؤس" کہلاتی ہے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سفارتی تنازعے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چند سال پہلے اس کی مالیت کا تخمینہ 40 کروڑ ڈالرز لگایا گیا تھا۔

قائداعظمؒ کی دہلی میں جائیداد

  • "جناح منزل دہلی" ، قائداعظمؒ نے 1938 میں ایک لاکھ روپے میں خریدی تھی جہاں ان کے 19 ملازمین بھی رہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں اس محل کا ماہانہ خرچہ 10 ہزار روپے تھا۔ 1947 میں قائداعظمؒ نے "جناح ہاؤس دہلی" ، بھارت کے چوٹی کے ایک صنعتکار اور ٹائمز آف انڈیا کے مالک کرشنا ڈالمیا کو تین لاکھ روپوں میں فروخت کر دیا تھا۔ اب یہ مکان ہالینڈ کے سفیر کی رہائش گاہ ہے جس کی موجودہ مالیت کا تخمینہ 12 کروڑ ڈالر ہے۔

قائداعظمؒ کی کراچی میں جائیدادیں

  • اڑھائی ایکڑ پر محیط "جناح منزل" کراچی انہوں نے 1943 میں ایک لاکھ 80 ہزار روپے میں خریدی تھی جو اب عجائب گھر میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہاں قائد اعظمؒ کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی ہوئی ہیں۔
  • کراچی میں قائداعظمؒ نے ملیر میں 12 ایکٹر کا باغ ، نواب آف بہاولپور سے خریدا تھا۔
  • کیماڑی میں ساحل سمندر پر 20 ایکڑ خرید کر اس میں ہٹ بنوایا۔ یہ جگہ محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ایک کروڑ 11 لاکھ روپے میں فروخت کر کے رقم قائداعظمؒ ٹرسٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔
  • بمبئی میں واقع قائداعظمؒ کے عظیم الشان بنگلہ کو جب بھارتی حکومت پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار نہ ہوئی تو حکومت پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کو اس کے بدلے میں متروکہ جائیداد مہٹہ پیلس الاٹ کر دیا جسے "قصر فاطمہ" بھی کہا جاتا تھا۔ 1999ء میں اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
  • آئی آئی چندریگر روڈ پر تقریباً چار کنال پر ایک کمرشل پلازہ بھی انہوں نے خریدا تھا جسے بعد میں محترمہ فاطمہ جناح نے دادا بھائی کو فروخت کر دیا تھا۔ اپنی وفات سے 15 دن پہلے بھی انہوں نے میکلوڈ روڈ موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک کمرشل بلڈنگ 10 لاکھ روپے میں خریدی تھی۔ یہ بلڈنگ ایک سال بعد محترمہ فاطمہ جناح نے ایک بینک کو 16 لاکھ روپے میں فروخت کر دی جس میں آج سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک قائم ہے۔
  • فریئر ٹاؤن کراچی میں 10 کنال کا ایک بنگلہ بھی قائد کی ممکنہ جائیدادوں میں سے ہے جہاں آج کل پارک ٹاور نامی پلازہ ہے۔
  • اسی فہرست میں سول لائن نمبر ایک میں 9 کنال کا بنگلہ بھی آتا ہے۔

قائداعظمؒ کی لاہور میں جائیدادیں

  • مال روڈ لاہور پر پونے پانچ ایکڑ پر محیط 53 نمبر بنگلہ "جناح ہاؤس" ، ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا گیا تھا۔ یہ سودا قائداعظمؒ کی جانب سے جسٹس فائز عیسی کے والد قاضی محمد عیسی نے کیا تھا۔ اب یہ کور کمانڈر ہاؤس ہے۔
  • لاہور میں ہی قائداعظمؒ نے 1945 میں نواب افتخار ممدوٹ سے اچھرہ میں 324 کنال اراضی خریدی تھی جس پر آج کل گلبرگ 2 اور گلبرگ 3 ہیں۔
  • لاہور ہی کی لبرٹی مارکیٹ میں ڈیڑھ کنال کا کمرشل پلاٹ ، انڈسٹریل ایریا میں 10 کنال کا پلاٹ بھی تھا۔

قائداعظمؒ کے بینک اکاؤنٹس

  • قائداعظم کے 12 بینک اکاؤنٹ بھی تھے جن میں سے چار برطانیہ میں تھے۔ تقسیم کے بعد انھوں نے اپنے تمام کھاتے حبیب بینک کراچی میں منتقل کردیے جن کی مالیت اس وقت 62 لاکھ روپے تھی۔
  • 2 فروری 1948 کو قائداعظمؒ نے بینک سے 61 لاکھ روپے قرضہ لیا جس میں سے 35 لاکھ 35 ہزار روپے مسلم لیگ کے حوالے کر دیے۔ 4 اگست 1948ء کو انھوں نے خرابی صحت کی بنا پر بینک سے قرضے کی منسوخی استدعا کی اور نہ صرف پورے 61 لاکھ روپے واپس کیے بلکہ بینک نے ایک لاکھ سات ہزار 658 روپے 12 آنے کا سود بھی وصول کیا۔

قائداعظمؒ کی بطور گورنرجنرل تنخواہ

  • قائداعظمؒ کی بطور گورنر جنرل ماہانہ تنخواہ کے بارے میں خاصی غلط بیانی کی گئی ہے کہ وہ صرف "ایک روپیہ" ماہانہ ہوتی تھی۔ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ان کی ماہانہ تنخواہ 10 ہزار 416 روپے 10 آنہ تھی جس میں سے چھ ہزار 112 روپے ٹیکس کٹوتی کے بعد آپ کو 4.304 روپے 10 آنہ ماہانہ ملتے تھے۔
قائداعظم کی تنخواہ
قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ کی تنخواہ کے بارے میں ایک اخباری خبر

قائداعظمؒ کی وصیت اور ترکہ

ڈاکٹر سعد خان کی کتاب کے مطابق قائد اعظمؒ نے اپنی وصیت 30 مئی 1939ء کو مروجہ اسماعیلی شیعہ قانون کے تحت لکھوائی تھی جس کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ خاندان کے افراد سے متعلق ہے جبکہ دوسرا برصغیر کے متعدد تعلیمی اداروں کے نام اپنی وراثت چھوڑتا ہے۔ ان میں اسلامیہ کالج پشاور ، سندھ مدرستہ الا سلام کراچی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، انجمن ِاسلام سکول بمبئی ، عربک کالج نئی دہلی اور یونیورسٹی آف بمبئی شامل تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں کا حصہ بھی مقرر کیا تھا لیکن یہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ کیونکہ ان کے ایک نواسے اسلم جناح بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے اور حکومتی وظیفے کے محتاج رہے۔

17 نومبر 2021 کو سندھ ہائی کورٹ نے بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناحؒ اور ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے چھوڑے گئے قیمتی اثاثوں اور سامان کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ذوالفقار احمد خان کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے سنگل جج بینچ نے نشاندہی کی تھی کہ تقریباً 50 سال پرانے مقدمے میں تفصیلی جائیدادوں بشمول کاریں ، شیئرز ، زیورات اور بینک بیلنس کا کبھی پتہ نہیں چل سکا جب کہ اس سے قبل سامنے آنے والی کئی دیگر اشیا بھی اب غائب ہیں۔

قائداعظمؒ کی تنخواہ کی رسید





Jinnah's assets

Saturday, 11 September 1948

Details on Jiannah's assets during his long career..




پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.