پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھ 4 اپریل 1979
بھٹو کو پھانسی دی گئی
ذوالفقار علی بھٹوؒ
کو پھانسی دے کر ثابت کیا گیا کہ
پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ
عوام کبھی نہیں ہو سکتے!
سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹوؒ کی پھانسی ، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ تھا۔۔!
4 اپریل 1979ء کو ایک بے بنیاد مقدمہ قتل میں بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ان کی لاش ایک خصوصی طیارے سے ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش، نوڈیرو (لاڑکانہ) پہنچائی گئی جہاں نماز فجر کے وقت مقامی مسجد میں موجود چند افراد سے نماز جنازہ پڑھوا کر لواحقین کو خبر دیے بغیر سرکاری نگرانی میں تدفین بھی کر دی گئی تھی۔
گیارہ بجے کی ریڈیو خبروں میں یہ خبر عام کی گئی کہ سابق وزیراعظم بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ پاکستان کے بے بس ، مظلوم و مقہور عوام بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے تھے۔ غیور عوام کی بڑی تعداد نے مختلف شہروں اور قصبوں میں اپنے عظیم رہنما کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا اور شہید رہنما کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
بھٹو کو پھانسی کیوں دی گئی؟
بھٹو کی پھانسی ، بظاہر ایک سیاسی مخالف کے قتل کی وجہ سے ہوئی لیکن حقیقت میں یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے خلاف ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش تھی۔ ماضی کے آئینے میں دیکھیں تو واقعات کی کڑیاں خود بخود ملنا شروع ہو جاتی ہیں:
- بھٹو کو ایک ایسے مقدمہ قتل میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی جس کا سارا دارومدار وعدہ معاف گواہوں پر تھا۔۔!
- قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب مقدمہ کمزور ہو ، ثبوت نہ ہوں اور ملزم کو سزا دلوانا مقصود ہو تو وعدہ معاف گواہوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیس میں ایسا ہی ہوا تھا۔ عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کی سزا معاف کردی جاتی ہے یا اس میں تخفیف کردی جاتی ہے لیکن بھٹو کی پھانسی اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کے آثار مٹانے کے لیے جھوٹا اعتراف جرم کرنے والوں کو بھی ختم کردیا گیا تھا اور جو مرکزی گواہ تھا ، اس کے بارے میں یہ خبر عام تھی کہ وہ امریکہ بہادر کی حفاظت میں تھا اور کبھی سامنے نہیں آیا تھا۔
- نواب محمد احمد خان نامی شخص کے مقدمہ قتل کے میں ملوث فیڈرل سیکورٹی فورسز (FSF) کے پانچ افسران اور اہلکاروں بشمول ڈی جی ایف ایس ایف، مسعود محمود اور ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا جنھوں نے یہ گواہی دی تھی کہ وہ قتل، انھوں نے وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوؒ کی ہدایت پر کیا اور کرایا تھا۔
وعدہ معاف گواہوں کو بھی پھانسی
بھٹو کے خلاف گواہیاں ، اقبالی بیانات کی صورت میں دی گئیں جن کے ذریعے ملزمان نے خود بھی اعترافِ جرم کر لیا تھا۔ چنانچہ اس کیس میں ٹرائل کورٹ بنائے گئے اور لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مرکزی ملزم ذوالفقار علی بھٹوؒ کے ساتھ ساتھ ایف ایس ایف کے چار عام اہلکار وعدہ معاف گواہوں کو بھی موت کی سزا سُنا دی تھی۔ صرف مرکزی گواہ، فیڈرل سیکورٹی فورسز کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود کو رعایت ملی جو پراسرار طور پر غائب ہوا اور آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں ہے ، زندہ ہے یا مر کھپ گیا گیا؟
بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کی حقیقت
احمدرضا قصوری، 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا تھا لیکن ڈھاکہ اسمبلی کے اجلاس کے تنازعہ پر اسے پارٹی سے باضابطہ طور پر نکال دیا گیا تھا۔ اس توہین آمیز سلوک پر وہ ، بھٹو کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اسی بغض میں 1973ء کے آئین کو اس نے وؤٹ تک نہیں دیا تھا۔ اسی نکتے پر 4 جون 1974ء کو وزیراعظم بھٹو کے ساتھ اسمبلی میں اس کی تکرار ہوگئی تھی جس پر بھٹو نے طیش میں آکر کہا تھا کہ "میں نے اس شخص کو بہت برداشت کیا ہے۔ یہ مجسم زہر قاتل ہے۔ اب میں اس کو قطعی برداشت نہیں کروں گا۔۔" بھٹو کے یہی الفاظ مقدمہ قتل کی بنیاد بنا دیے گئے تھے۔
وقت کے حکمران کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی!
اس واقعہ کے چند ماہ بعد 10 نومبر 1974ء کو نواب احمدخان کا قتل ہوتا ہے۔ احمدرضا قصوری اپنے باپ کے قتل کی FIR ، وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوؒ کے خلاف کٹواتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ تھا جب لاہور کے اچھرہ تھانے میں حاکمِ وقت کے خلاف ایک تھانیدار یہ رپورٹ درج کرلیتا ہے۔ اس پر تحقیق ہوتی ہے اور عدم ثبوت کی بنیاد پر کیس داخل دفتر ہوجاتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ایک عام فہم شخص بھی جانتا تھا کہ سیاسی طور پر احمدرضا قصوری یا اس کا باپ، بھٹو کے لیے کسی طور پر اہم یا خطرناک نہیں تھے۔ اور کوئی بھی حکمران اپنے دورِ حکومت میں قتل و غارت یا امن و امان جیسے سنگین مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ نادیدہ قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسے مسائل پیدا کرکے حکومتِ وقت کو غیر مستحکم کرتی رہی ہیں۔ پ>
بھٹو کو کسنجر کی دھمکی
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوؒ، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے اور امریکہ اس پروگرام کے سخت خلاف تھا۔ پاکستان کا "اسلامی بم" دنیا بھر کے میڈیا میں مشہور ہوچکا تھا۔ بات یہاں تک جا پہنچی تھی کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ کے دوطرفہ معاہدے کے خلاف امریکی مہم کے نتیجے میں 9 اگست 1976ء کو لاہور میں ایک ملاقات میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو یہ مشہور زمانہ دھمکی دی تھی:
"We will make a horrible example of you" یعنی اگر تم ایٹمی پلانٹ کے حصول کے ارادے سے باز نہ آئے تو "ہم تمہیں ایک عبرتناک مثال بنا دیں گے۔۔"
دنیا کی ایک سپرپاور کی طرف سے یہ دھمکی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ پاکستان میں ویسے بھی غداروں اور آستین کے سانپوں کی کمی نہ تھی۔ "مینوں نوٹ وخا ، میرا موڈ بنے۔۔" کے مطابق ڈالروں کی خاطر ملک کی سالمیت اور قوم کی غیرت و حمیت داؤ پر لگانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔ 1977ء کے انتخابات میں ایسے ہی سازشی عناصر نے اپنا کھیل کھل کر کھیلا تھا جو پاک میگزین کے دیگر تاریخی واقعات کے صفحات پر تفصیل سے درج ہے۔
بھٹو کی پھانسی کیا پیغام دیتی ہے؟
بھٹو کی پھانسی ، کسی ایک فرد ، ایک رہنما یا ایک نظریے کی نہیں بلکہ پاکستان کے غیور عوام کے خلاف باطل قوتوں کی کامیابی تھی۔ اس پھانسی سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہیں ہو سکتے۔ اور یہ کہ پاکستان جیسے اہم جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے خطے میں جنگل کا قانون چلتا رہے گا۔ اور یہ کہ اس ملک میں بھٹو جیسے عظیم ، غیور اور خوددار لیڈروں کی کبھی گنجائش نہیں ہوگی۔
اس بدنامِ زمانہ مقدمہ قتل میں بھٹو کی بےگناہی مسلمہ تھی۔ بھٹو کا مقدمہ قتل ، پاکستانی عدلیہ کے وقار پر ایک بدنما داغ تھا۔ بھٹو کے قتل میں ملوث ایک ایک شخص قومی مجرم اور لعنتی کردار ہے ، تاریخ ایسے غلیظ کرداروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔!
Bhutto Excuted..!!!
(Mazhar Iqbal's political diary)
Bhutto Hanged..!!!
(Daily Nawa-i-Waqt Lahore, 5 April 1979)
Bhutto Hanged..!!!
(Daily Dawn, 5 April 1979)
Bhutto Hanged..!!!
(Daily Pakistan Times, 5 April 1979)
Bhutto Hanged..!!!
(Daily Sang-e-Meel Multan, 5 April 1979)
Bhutto Hanged on April 4, 1979
Wednesday, 4 April 1979
Pakistan's first democratic elected Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto was hanged by A Military dictator General Zia-ul-Haq on April 4, 1979..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
27-10-1947: جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ
13-04-1949: پاکستان کا پاسپورٹ
22-03-2008: سید یوسف رضا گیلانی