Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


سید شوکت حسین رضوی

سید شوکت حسین رضوی ، عام طور پر ملکہ ترنم نورجہاں کے پہلے شوہر کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ فلمی حلقوں میں ایک کامیاب سٹوڈیو اونر مانے جاتے تھے جبکہ فلمی تاریخ کے طالب علموں کے لیے تقسیم سے قبل کے ایک کامیاب ترین لیکن پاکستان کے ایک ناکام ترین ہدایتکار کے طور پر جانے جاتے تھے۔۔!

لاہور کی پہلی بلاک باسٹر اردو فلم خزانچی (1941)

شوکت صاحب ، بنیادی طور پر ایک فلم ایڈیٹر یا تدوین کار تھے ۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کولکتہ (کلکتہ) سے کیا تھا۔ لاہور کی ایک فلم کمپنی 'پنچولی پکچرز' نے جب اپنی پہلی فلم گل بکاؤلی (1937) بنائی تو اس کے لیے کلکتہ سے جہاں بے بی نورجہاں کو بلوایا گیا وہاں فلم ایڈیٹر شوکت حسین رضوی کو بھی دعوت دی گئی تھی۔

اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد پنچولی پکچرز نے جب اپنی پہلی ہندی /اردو فلم خزانچی (1941) بنائی تو اس کے ایڈیٹر کے طور پر بھی شوکت صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔

فلم خزانچی (1941) لاہور کی پہلی بلاک باسٹر فلم تھی جس نے پورے برصغیر میں بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے ۔ اس فلم کا ٹائٹل رول ایم اسماعیل نے کیا تھا لیکن خاص بات اس فلم کا میوزک تھا۔ ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی نے ہندوستانی فلموں کے نیم کلاسیکل اور بنگالی سٹائل کو بدل کر پنجابی ٹچ دیا تھا جو اگلی کئی دھائیوں تک برصغیر کی موسیقی کی پہچان رہا۔

اس فلم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ہیروئن اپنی سہیلیوں کے ساتھ سائیکلوں پر سیر و سپاٹا کرتے ہوئے ایک کورس گیت گاتی ہے ، جس کی ایڈیٹنگ پر بطور خاص شوکت صاحب کی کارکردگی کو سراہا گیا تھا۔ یہی کارکردگی شاید انھیں فلمساز کے مزید قریب لے آئی تھی۔

شوکت رضوی اور نورجہاں

پنچولی پکچرز نے جب اپنی دوسری ہندی /اردو فلم خاندان (1942) بنائی تو اس کے ہدایتکار کے طور پر سید شوکت حسین رضوی کا انتخاب کیا تھا۔ بطور ہدایتکار شوکت صاحب کی پہلی ہی فلم اس سال کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی پانچ فلموں میں شمار ہوئی جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔

فلم خاندان (1942) ، ایک انگریزی ناول پر بنائی گئی تھی جس میں مرکزی کردار کلکتہ کے ایک اداکار بابا ابراہیم کا تھا جبکہ غلام محمد کے علاوہ اجمل مرکزی ولن تھے جن کا تکیہ کلام "انگلستان میں تو ایسا نہیں ہوتا۔۔" زبان زدعام ہوا تھا۔ ہیرو ممتاز بھارتی ولن اداکار پران تھے۔

اس فلم کو میڈم نورجہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم بتایا جاتا ہے لیکن اس سے قبل دو پنجابی فلموں یملاجٹ (1940) اور چوہدری (1941) کے پوسٹروں پر نورجہاں کا نام 'بےبی' کے بغیر لکھا ہوا ملتا ہے ، اس لیے ممکن ہے کہ 1926ء میں پیدا ہونے والی یہ عظیم فنکارہ ، ان فلموں میں مکمل ہیروئن آئی ہو۔

یاد رہے کہ اسی سال بمبئی کی ایک فلم فریاد (1942) اور اس سے قبل کی متعدد فلموں میں بھی ' نورجہاں' نامی اداکارہ کا نام ملتا ہے لیکن یہ کوئی اور اداکارہ تھی جس نے تیس اور چالیس کی دھائیوں میں چالیس کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔

میڈم کی پہلی ہندی/اردو فلم خاندان (1942) ہی تھی۔ اس سے قبل انھوں نے چائلڈ سٹار کے طور پر کلکتہ کی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی (1935) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا اور وہاں سے براستہ لاہور کی فلموں سے ہوتے ہوئے بمبئی پہنچی تھیں۔ اسی فلم سے میڈم نورجہاں نے بطور اداکارہ اور گلوکارہ پورے برصغیر میں اپنی پہچان کروائی تھی۔ ماسٹرغلام حیدر کی موسیقی میں میڈم کے دوگیت "تو کون سی بدلی میں میرے چاند ہے ، آجا۔۔" اور "میرے لیے جہاں میں ،چین ہے نہ قرار ہے۔۔" سپرہٹ ہوئے تھے۔

فلم خاندان ، 13 مارچ 1942ء کو سب سے پہلے لاہور کے پیلس سینما میں ریلیز ہوئی تھی اور سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس دور کے ایک اخباری اشتہار میں اس فلم کی لاہور میں سلورجوبلی کے موقع پر یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ صرف لاہور میں بیس لاکھ سے زائد 'حضرات' اس فلم کو دیکھ چکے ہیں (شاید اس دور میں خواتین ، فلمیں نہیں دیکھتی تھیں؟)

یاد رہے کہ اسوقت لاہور میں بیس سینما گھر ہوتے تھے جن پر برصغیر کی فلموں کے علاوہ امریکی یا ہالی وڈ کی فلمیں بھی بڑی تعداد میں ریلیز ہوتی تھیں۔

فلم خاندان (1942) کے اس اشتہار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے بعد یہ فلم کلکتہ میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کے بعد کراچی ، بمبئی اور دہلی وغیرہ میں ، جہاں یہ فلم اپنی ریلیز کے بعد سے مسلسل چل رہی تھی اور تمام بڑے شہروں میں کامیاب بزنس کر رہی تھی۔

بمبئی کے کامیاب ترین ہدایتکار

سید شوکت حسین رضوی کی بمبئی میں دوسری فلم نوکر (1943) تھی جو سال کی دس کامیاب ترین فلموں میں سے ایک تھی۔ اس فلم کاکوئی گیت سپرہٹ نہیں تھا۔

اسی دوران میڈم نورجہاں کو بطور ہیروئن اور گلوکارہ، بمبئی کی دو مزید فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن میں ہدایتکار ضیاء سرحدی کی فلم نادان (1943) اور ہدایتکار وی ایم ویاس کی فلم دہائی (1943) تھیں۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ دونوں فلمیں بھی سال کی ٹاپ ٹین فلموں میں شمار ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال کی فلم قسمت (1943) ، ایک کروڑ روپیہ بزنس کرنے والی ریکارڈ توڑ فلم تھی جو آج کے کئی ارب روپے بنتے ہیں۔ یہ برصغیر کی پہلی ڈائمنڈجوبلی فلم تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کلکتہ میں 190 ہفتوں سے زائد چلی تھی۔ اشوک کمار کے علاوہ اس کے ولن شاہنواز تھے جو پاکستان کی کئی فلموں میں معاون اداکار کے طور دیکھے گئے تھے اور فلم ایاز (1960) میں محمودغزنوی کے رول میں تھے۔

اس فلم کی ہیروئن ممتاز شانتی تھی جو اس سے قبل لاہور کی پنجابی فلم منگتی (1942) میں مسعود پرویز کے ساتھ ہیروئن تھی۔ یہ برصغیر کی پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم تھی جو ایک سال تک لاہور میں زیر نمائش رہی تھی۔

کامیاب فلموں کی ہٹ ٹرک

شوکت صاحب کی تیسری فلم دوست (1944) بھی سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس طرح ان کی کامیابیوں کی ہٹ ٹرک بھی مکمل ہو گئی تھی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا یہ گیت "بدنام محبت کون کرے۔۔" ایک سپرہٹ گیت تھا جس کی دھن سجاد حسین نے بنائی تھی۔ میڈم نورجہاں کی اس سال ، ایک اور فلم لال حویلی (1944) بھی ریلیز ہوئی تھی جس کے ہدایتکار کے بی لال تھے ۔

پہلی زنانہ فلمی قوالی

1945ء کا سال سید شوکت حسین رضوی کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم زینت (1945) لے کر آیا جو اس سال باکس آفس پر سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی۔ میڈم نورجہاں نے صرف 19 سال کی عمر میں ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کرکے میلہ لوٹ لیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فلم میں انھیں بہترین اداکارہ کا ایک ایوارڈ بھی ملا تھا۔ موسیقی میر صاحب اور حفیظ خان کی تھی اور متعدد گیت بے حد مقبول ہوئے تھے۔ "آندھیاں غم کی یوں چلیں کہ باغ اجڑ کے رہ گیا۔۔" اور "بلبلو ، مت روؤ یہاں ، آنسو بہانا ہے منع۔۔" کے علاوہ ایک زنانہ قوالی بھی متعارف کروائی گئی تھی "آہیں نہ بھریں ، شکوے نہ کیے ، کچھ بھی نہ زبان سے کام لیا۔۔"

دلچسپ بات یہ تھی کہ مزید دو فلمیں گاؤں کی گوری اور بڑی ماں (1945) بھی باکس آفس پر بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلمیں تھیں جن کی ہیروئن میڈم نورجہاں تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈم کو بطور اداکارہ بھی کتنی کامیابی ملی ہوگی۔

نورجہاں اور لتا منگیشکر

فلم بڑی ماں (1945) میں بھارت کی عظیم گلوکار لتا منگیشکر نے بطور چائلڈ سٹار ، میڈم نورجہاں کے بچپن کا رول کیا تھا۔ اس فلم میں میڈم کا گیت "آ ، انتظار ہے تیرا۔۔" بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم گاؤں کی گوری (1945) میں میڈم کی جوڑی اداکار نذیر کے ساتھ تھی اور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں متعدد گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں "کس طرح بھولے گا دل ، ان کا خیال آیا ہوا۔۔" اور "بیٹھی ہوں تیری یاد کا لے کے سہارا۔۔" خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی سال میڈم نورجہاں نے فلم بھائی جان (1945) میں بھی کام کیا تھا۔

نورجہاں کے عروج کا دور

1946ء میں شوکت صاحب کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی لیکن میڈم نورجہاں کی بطور اداکارہ تین فلمیں سامنے آئی تھیں جن میں شوکت صاحب ہی کے شاگرد ، ہدایتکار لقمان کی ہمجولی (1946) اور ہدایتکار ایس یف حسنین کی دل (1946) کے علاوہ ہدایتکار محبوب کی معرکتہ الآرا نغماتی فلم انمول گھڑی (1946) بھی شامل تھی۔ موسیقار نوشاد علی کی موسیقی میں تنویر نقوی کے لکھے ہوئےگیت میڈم نورجہاں کی لازوال آواز میں امر ہوگئے تھے "آواز دے کہاں ہے ، دنیا میری جواں ہے۔۔" ، "جواں ہے محبت ، حسین ہے زمانہ۔۔" ، " آجا میری برباد محبت کے سہارے۔۔" ، "میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول نہ جانا۔۔" اور "کیا مل گیا بھگوان تجھے دل کو جلا کے۔۔" فلم انمول گھڑی (1946) ، اس سال کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی بلاک باسٹر فلم تھی۔

اس فلم میں پہلی اور آخری بار میڈم نورجہاں کا ساتھ ایک اور بڑی گلوکارہ ثریا کے ساتھ ہوا تھا۔ دونوں نے اداکاری کے علاوہ گلوکاری بھی کی تھی۔

نورجہاں ، دلیپ کمار اور محمدرفیع

سید شوکت حسین رضوی کی تقسیم سے قبل آخری بڑی فلم جگنو (1947) تھی جو سال کی کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس طرح شوکت صاحب کا تقسیم سے قبل کا ریکارڈ سو فیصدی مثبت رہا کیونکہ ان کی سبھی فلمیں سپرہٹ ہوئی تھیں۔ میڈم نورجہاں ، ٹائٹل رول میں تھیں جبکہ ہیرو دلیپ کمار تھے جن کی یہ پہلی کامیاب فلم تھی۔ یہی فلم گلوکار محمدرفیع کے لیے بھی بریک تھرو بتائی جاتی ہے۔ انھوں نے اس فلم کے ایک گیت میں اداکاری بھی کی تھی۔ اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی اور بابا چشتی نے دی تھی۔ "یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے۔۔" اکلوتا دوگانا تھا جو نورجہاں اور محمدرفیع نے گایا تھا۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میڈم نے چالیس کے عشرہ میں اتنا عروج دیکھا لیکن کبھی کسی موسیقار یا ہدایتکار/فلمساز نے انھیں وقت کے سب سے بڑے گلوکار کندل لال سہگل کے ساتھ کوئی گیت نہیں گوایا تھا نہ کسی فلم میں دونوں ایک ساتھ آئے تھے۔ فلم جگنو (1947) میں پہلی بار ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کے علاوہ گلوکار ایس ایم ناگی کو بھی گوایا گیا تھا جو معروف گلوکار انوررفیع کے والد تھے۔ فلم جگنو (1947) سے میری بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں ۔ یہ فلم نہ ہوتی تو شاید میری شادی وہاں نہ ہوتی ، جہاں ہونا تھی یا ہوئی۔ بات طویل ہے ، اس لیے اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔

شوکت رضوی کی پاکستان آمد

قیام پاکستان کے بعد سید شوکت حسین رضوی ، اپنی بیگم میڈم نورجہاں اور بچوں کے ساتھ پاکستان ، واپس چلے آئے اور پہلے کراچی میں قیام کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انھیں وہاں ایک بنگلہ الاٹ ہوا تھا۔ اس وقت تک کراچی میں فلم انڈسٹری کا کوئی وجود نہیں تھا ، اس لیے لاہور چلے آئے جہاں انھیں ایک کوٹھی ، ایک سینما (ریجنٹ) اور پورا شوری سٹوڈیو الاٹ ہوا تھا جسے انھوں نے شاہ نور کے نام سے نئے سرے سے تعمیر کیا۔ انھی مصروفیات میں وہ ، اپنے ابتدائی دور میں فلمسازی کی طرف توجہ نہ دے سکے تھے۔

نورجہاں ، پہلی خاتون ہدایتکارہ؟

چن وے (1951) پہلی فلم تھی جس کے فلمساز کے علاوہ نگران ہدایتکار کے طور پر شوکت صاحب کا نام ملتا ہے۔ فلم ڈائریکٹر کے طور پر میڈم نورجہاں کا نام دیا گیا تھا ۔ اس طرح سے ریکارڈز میں وہ ، پاکستان کی پہلی خاتون ہدایتکارہ ثابت ہوئیں۔ یہ فلم ان کے اپنے سینما ریجنٹ میں 18 ہفتے چلی تھی۔ پاکستان میں اس سے قبل فلم پھیرے (1949) اور دو آنسو (1950) ، کامیاب سلورجوبلیاں کر چکی تھیں ، اس لیے یہ کارکردگی مایوس کن تھی۔

فلم بینوں کو شاید یہ بات ہضم نہیں ہوئی تھی کہ ہیرو (سنتوش) اور ہیروئن (نورجہاں) ، بہن بھائی ہوتے ہیں۔ اداکارہ یاسمین نے اس فلم میں ایک ثانوی رول کیا تھا اور چند برسوں بعد شوکت صاحب سے شادی بھی کر لی تھی۔ یہ فلم اپنے گیتوں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ موسیقی فیروز نظامی کی تھی اور میڈم کے گائے ہوئے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں سے "وے منڈیا سیالکوٹیا۔۔" تو ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔

فلم گلنار (1953) کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کے نگران ہدایتکار شوکت صاحب تھے لیکن یہ فلم بھی ناکام رہی تھی۔ موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی یہ آخری فلم تھی جس کا ایک گیت قابل ذکر تھا جو میڈم نے گایا تھا "لو ، چل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر۔۔"

نورجہاں اور شوکت رضوی کی طلاق

پاکستان کی فلمی تاریخ میں سید شوکت حسین رضوی کی بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف پہلی فلم جان بہار (1958) ریکارڈ پر ہے۔ اس ناکام فلم کی اصل ہیروئن تو میڈم نورجہاں تھیں لیکن دونوں میں ناچاقی اور نوبت طلاق تک آجانے کے بعد ہیروئن کو بدل کر مسرت نذیر کو کاسٹ کیا گیا تھا۔

اس فلم کے ایک گیت میں نیلو کا رقص ہوتا ہے جس سے لطف اندوز ہونے والوں میں سکرین پر ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی کے دائیں طرف پاکستان کے پہلے سپرسٹار سدھیر اور بائیں طرف دوسرے سپرسٹار سنتوش بیٹھے ہوتے ہیں جو ایک منفرد منظر تھا کیونکہ یہ دونوں بڑے اداکار کبھی کسی فلم میں ایک ساتھ نظر نہیں آئے تھے۔ اس فلم میں میڈم کا یہ گیت بڑا پسند کیا گیا تھا "کیسا نصیب لائی تھی، گلشن روزگار میں۔۔" اداکارہ حسنہ کی بطور چائلڈ سٹار یہ پہلی فلم تھی۔

نورجہاں اور شوکت رضوی کے خاندانی جھگڑے

سید شوکت حسین رضوی اور ملکہ ترنم نورجہاں کے مابین پچاس کے عشرہ میں اختلافات اتنے شدید ہوئے کہ دونوں کی راہیں جدا ہوگئی تھیں۔ میڈم نے اداکار اعجاز جبکہ شوکت صاحب نے اداکارہ یاسمین کے ساتھ دوسری شادی کی جو قبل ازیں عکاس جعفر بخاری کی زوجیت میں تھیں۔

شوکت صاحب کی میڈم سے ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے جبکہ یاسمین سے بھی دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ان کی مشترکہ جائیدادوں میں سے شاہ نور فلم سٹوڈیو ، بنگلہ اور ریجنٹ سینما لاہور وغیرہ تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ علیحدگی کے وقت میڈم نورجہاں نے اپنے بچوں کے لیے ساری جائیداد کو قربان کردیا تھا لیکن جب اولادیں جوان ہوئیں تو 1980ء کی دھائی میں جائیداد کی تقسیم پر جو جھگڑے ہوئے ، اس کا گواہ پورا ملک تھا کیونکہ ذاتی مسائل ، میڈیا میں آئے ، یہاں تک کہ شوکت صاحب نے میڈم سے اپنے اختلافات پر ایک تفصیلی کتاب 'نورجہاں اور میں' بھی لکھی تھی جو پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ وہ کتاب پڑھ کر شوکت صاحب کا ایک بڑا ہی منفی تصور ذہن میں آتا ہے اور آدمی سوچتا ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے لیے بعض اوقات بڑے لوگ ، کتنے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔۔!

پاکستان میں شوکت رضوی ایک ناکام ہدایتکار تھے!

شوکت صاحب کی بطور ہدایتکار دوسری فلم عاشق (1968) تھی جو ایک اور ناکام فلم تھی۔ دیبا اور کمال مرکزی کردار تھے۔ یہی واحد فلم تھی جس میں شوکت صاحب کی کسی فلم میں مسعودرانا کا کوئی گیت ملتا ہے۔ "اک بار اور گلے سے لگا لے ماں۔۔" ایک بڑا دلسوز تھیم سانگ تھا جو رانا صاحب نے اس فلم میں ناشاد کی دھن میں گایا تھا۔

​اس فلم کے فلمساز کے طور پر اصغر حسین رضوی کانام ملتا ہے جو شوکت صاحب کے چھوٹے صاحبزادے تھے اور یہ ان کی اکلوتی فلم تھی۔ اس سے قبل شوکت صاحب کے بڑے صاحبزادے اکبر حسین رضوی نے بطور فلمساز اور ہدایتکار فلم ماں بہو اور بیٹا (1966) بنائی تھی۔ فلمساز کے طور پر ان کا نام ایک اور فلم پتر پنج دریاواں میں (1972) میں بھی ملتا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ ان تینوں باپ بیٹوں کی سبھی فلمیں ناکام رہی تھیں۔ اکبر ، اداکارہ سونیا جہاں کے باپ تھے۔

سید شوکت حسین رضوی کی بطور ہدایتکار آخری فلم دلہن رانی (1973) تھی جو ایک اور ناکام فلم تھی۔ اس طرح پاکستان میں ان کا سو فیصدی ریکارڈ منفی رہا اور تمام فلمیں ناکام رہیں۔ اس فلم میں نشو اور ناظم کے ساتھ عقیل بھی تھے جو ان کے داماد بھی بنے۔ عقیل کی شادی ظل ہما سے ہوئی تھی۔ یہ دونوں دور حاضر کے معروف اداکار احمدعلی بٹ کے والدین تھے۔ سید شوکت حسین رضوی ، 1913ء میں اترپردیش میں پیدا ہوئے اور 1998ء میں لاہور میں انتقال ہوا۔

مسعودرانا کے سید شوکت حسین رضوی کی 1 فلم میں 1 گیت

(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
1
فلم ... عاشق ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ناشاد ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: (پس پردہ ، طالش)

Masood Rana & Syed Shoukat Hussain Rizvi: Latest Online film

Masood Rana & Syed Shoukat Hussain Rizvi: Film posters
Ashiq
Masood Rana & Syed Shoukat Hussain Rizvi:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Syed Shoukat Hussain Rizvi:

Total 1 joint films

(1 Urdu, 0 Punjabi films)

1.1968: Ashiq
(Urdu)


Masood Rana & Syed Shoukat Hussain Rizvi: 1 song in 1 films

(1 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Ashiq
from Friday, 30 August 1968
Singer(s): Masood Rana, Music: Nashad, Poet: , Actor(s): (Playback - Talish)


Sardar
Sardar
(1957)
Azaadi
Azaadi
(2018)

Devdas
Devdas
(1935)
Manchali
Manchali
(1943)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.