حروفِ تہجی کی تاریخ
م
میم (Meem) کو دونوں ہونٹوں کے خشک حصہ کے ملنے سے ادا کیا جاتا ہے۔
"م" کی تاریخ
دنیا کی پہلی حروفِ تہجی یعنی فونیشین زبان کے 13ویں حرف Mem کو پانی (Water) سے تعبیر کیا جاتا تھا جبکہ قدیم مصری ہیروغلیفی تصاویری تحریروں میں "م" کو "الو" (Owl) کی علامت کے طور پر پڑھا گیا ہے۔
"م"، اردو/پنجابی (میم) کا 31واں، فارسی (مے) کا 28واں، عربی (میم) کا 24واں اور ہندی کا 25واں حرف म (ما) ہے۔ صوتی اعتبار سے اردو کا 45واں حرف ہے۔ انگریز ی کے 13ویں حرف M (ایم) کا ہم آواز ہے۔
"م" کی خصوصیات
- عربی گرامر میں "م"، ایک مذکر اور قمری حرف ہے۔ "ال" لکھا جائے گا تو بولا بھی جائے گا جیسے "الملک" یا "المومن" وغیرہ۔
- علمِ تجوید میں "م" کو تین الف کے برابر باریک اور ناک سے بچا کر پڑھا جاتا ہے۔ "م" بھی "ر، ل، ن، و اور ی" کی طرح ایک "یرملون حرف" ہے یعنی جب "نون ساکن یا نون تنوین" کے بعد ایسے حروف آئیں تو وہاں ادغام ہوتا ہے۔
- قرآنِ کریم کے رموز اوقاف میں آیات کے درمیان "م" کی علامت پر رکنا ضروری ہوتا ہے۔
- علمِ ہجا میں "م" کو "ب،ف اور و" کی طرح "حروفِ شفویہ" (Labial) کہتے ہیں۔
- فنِ خطاطی میں "م" کا شمار "اصلی حروف" میں ہوتا ہے جو خطِ نستعلیق میں چاروں لائنوں میں لکھا جاتا ہے۔
- حسابِ ابجد میں "م"، 13واں حرف (کلمن) ہے جس کے 40 عدد شمار ہوتے ہیں۔
- علم الاعداد میں "م"، ایک "آتشی حرف" ہے جس کی تاثیر "آگ"، برج اسد (Leo) اور سیارہ شمس (Sun) ہے۔
مھ
مھ (Mhay) بھی ہوا کے جھٹکے سے منہ سے نکلنے والی ہائیہ یا ہکاری آوازوں (Aspirated sounds) کا ایک حرف ہے جو"م" کی موٹی آواز ہے جو "رھ"، "ڑھ" اور "لھ" کے بعد اردو کا ایک اور مخصوص حرف ہے جو عربی، فارسی یا ہندی میں نہیں ملتا۔
"مھ" کو عام طور پر "تمھارا" یا "کمھار" میں لکھا جانا چاہیے لیکن یہ صحیح املاء اب غلط اور عجیب لگتی ہے کیونکہ عام طور پر ان الفاظ کو "تمہارا" یا "کمہار" کی صورت میں لکھا جانا عام ہے۔ ہندی اور انگریزی/رومن میں بھی ان الفاظ کو "م" اور "ھ" کو الگ الگ کر کے لکھا جاتا ہے جیسے کہ तुम्हारा یا Tumhara وغیرہ۔
"مھ"، اردو/پنجابی (مھے) کا 15واں مرکب اور 14واں ہائیہ حرف ہے۔ صوتی اعتبار سے اردو حروفِ تہجی کا 46واں حرف ہے۔
پاک میگزین، ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین پر پاکستان کے سال بسال اہم ترین تاریخی اور سیاسی واقعات کے علاوہ پاکستانی زبانوں کا ڈیٹا بیس، حروفِ تہجی کی تاریخ اور پاکستان کی فلمی تاریخ پر نایاب معلومات دستیاب ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ
-
23-12-1971: میاں محمود علی قصوری
24-03-1981: جسٹس محمد حلیم
27-10-1958: آرمی چیف جنرل موسیٰ خان