پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھ 21 مارچ 1979
احمد رضا قصوری کا مطالبہ
بھٹو کے قاتل ، مرنے سے پہلے
بھٹو کی بےگناہی کا ثبوت
لے کر مررہے ہیں اور
یہی قدرت اور تاریخ کا انصاف ہے!
بھٹو کی جان بخشی کے لیے احمدرضا قصوری کی تین شرائط۔۔!
21 مارچ 1979ء کے پاکستانی اخبارات میں بھٹو کے قاتل، احمدرضا قصوری کا ایک بیان شائع ہوا جس میں اس نے کہا کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی گئی تو میں اور میری ماں، ایوانِ صدر کے سامنے مظاہرہ کریں گے۔ اس نے بھٹو کی جان بخشی کے لیے مندرجہ ذیل تین شرائط پیش کیں:- فرانس، پاکستان کو ایٹمی پلانٹ دے
- برطانیہ، آئرلینڈ کو آزاد کرے
- برطانیہ، تیس لاکھ پاکستانیوں کو قبول کرے
ان تین مطالبات کے علاوہ موصوف نے یہ بیان بھی دیا کہ بھٹو، ایک شیطان صفت انسان ہے، اگر اس کو چھوڑا گیا تو رہائی کے بعد مجیب کا کردار کرتے ہوئے "سندھو دیش" کا نعرہ بلند کرے گا۔
فرانس کا ایٹمی پلانٹ
یاد رہے کہ بھٹو کے زوال کے بعد فرانس نے یکطرفہ طور پر پاکستان کے ساتھ ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا جس کے تحت چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہونا تھی جو اس وقت منگلا اور تربیلا ڈیموں کی مجموعی پیداوار سے بھی دگنی تھی۔ یہ معاہدہ، جہاں امریکہ کی ناراضی اور بھٹو کے زوال کا باعث بنا، وہاں امریکی دباؤ پر فرانس نے یہ معاہدہ منسوخ کردیا تھا حالانکہ دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد 18 مارچ 1976ء کو اس پر دستخط کرتے ہوئے تمام بین الاقوامی اصول و ضوابط کا خیال رکھا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں فرانس نے معاہدے کی خلاف ورزی پر ہرجانہ ادا کیا تھا۔احمدرضا قصوری ، ایک ذہنی مریض
احمدرضا قصوری، شروع ہی سے ایک ذہنی مریض اور ایک متلون مزاج شخص رہا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں بھٹو کی بے مثل مقبولیت کی وجہ سے جیتا۔ 1971ء میں جب پاکستان کا آئینی بحران عروج پر تھا اور بھٹو نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا تھا کہ ہمیں، آئین سازی میں مفاہمت کے لیے مزید وقت دیا جائے تو قصوری، اپنی پارٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈھاکہ چلا گیا تھا کیونکہ اس وقت وہ مجیب الرحمان کو حق بجانب سمجھتا تھا جس کے بارے میں اس بیان میں اعتراف کررہا ہے کہ مجیب، پاکستان دشمن اور علیحدگی پسند تھا۔
ڈھاکہ سے واپسی پر اسے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے نکال دیا گیا تھا لیکن اس نے اپنی الگ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین بھٹو کو ہی پیپلز پارٹی سے نکال دیا تھا۔۔!
بھٹو اور سندھو دیش
اس بیان میں وہ بھٹو پر یہ الزام بھی عائد کر رہا ہے کہ رہائی کے بعد وہ، سندھو دیش کا نعرہ بلند کرے گا۔ قصوری کی دیگر بکواس کی طرح یہ بھی ایک ہوائی فائر تھا۔ اس کا منہ توڑ جواب تو بھٹو کے داماد، آصف علی زرداری نے دیا تھا جب بھٹو کے عدالتی قتل اور بےنظیر بھٹو اور اس کے بھائیوں کے سرکاری قتل کے بعد بھی اس نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا کر مخالفین کی بولتی بند کر دی تھی۔تاریخ کا انصاف
پاکستان کی تاریخ میں احمدرضا قصوری کو "ایک ذہنی مریض جو بھٹو کا قاتل تھا!" سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اس کا باپ قتل ہوا، انتہائی قابلِ افسوس اور قابل مذمت فعل ہے۔ کسی کی جان لینا بہت بڑا جرم ہے لیکن یہ جرم، بھٹو نے نہیں کیا تھا جس پر تاریخ نے اپنا فیصلہ ثبت کر دیا ہے۔ اس کو جھٹلانے والا صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو بھٹو سے انتہائی بغض رکھتا ہو اور مسلسل گمراہی کا شکار ہو۔ احمدرضا قصوری، وہ جھوٹا اور مکار شخص ہے جو 1974ء میں وقت کے وزیرِاعظم کے خلاف لاہور کے ایک تھانے میں مقدمہ قتل کی FIR لکھواتا ہے لیکن 1976ء میں اپنے باپ کے مبینہ قاتل کی سیاسی پارٹی میں ٹکٹ کے لالچ میں دوبارہ شامل ہو جاتا ہے۔ جب 1977ء کے انتخابات میں اس کو ٹکٹ نہیں ملتا تو بھٹو کے زوال کے بعد ایک بین الاقوامی سازش کا شکار ہو کر ایک بے بنیاد مقدمہ قتل پر پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے لیڈر کو بے گناہ پھانسی پر چڑھوا دیتا ہے۔ موت برحق ہے، ہر کسی نے مرنا ہے لیکن بھٹو، مر کر بھی زندہ ہے۔ اس کے بیشتر قاتل، جہنم واصل ہوچکے ہیں، باقی جو زمین کا بوجھ بن کر زندہ ہیں، وہ مرنے سے پہلے بھٹو کی حقانیت اور بےگناہی کا ثبوت لے کر مر رہے ہیں، اور یہی قدرت اور تاریخ کا انصاف ہے۔۔!!!Demand by Ahmad Raza Qasoori
Wednesday, 21 March 1979
Three demands on Bhutto by Ahmad Raza Qasoori..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
12-08-1983: قائد اعظم کی جعلی ڈائری
16-08-1991: آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ
20-12-1965: صدرایوب کی بھارت کو جنگ نہ کرنے کی پیش کش