پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
اتوار 18 مارچ 1984
ایم کیو ایم
18 مارچ 1984ء کو قائم ہونے والی ایم کیو ایم، لسانی بنیادوں پر بننے والی ایک علاقائی سیاسی جماعت ہے۔۔!
کراچی یونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو ایک طالبِ علم لیڈر، الطاف حسین کی قیادت میں بننے والی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے بطن سے پیدا ہونے والی سیاسی جماعت، "مہاجر قومی موومنٹ"، 1997ء میں "متحدہ قومی موومنٹ" کہلائی۔
ایم کیو ایم، قیامِ پاکستان کے بعد سندھ کے بڑے شہروں، خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں آباد، اردو بولنے والے ہندوستانی مہاجروں کی نمائندہ جماعت رہی ہے۔
ایم کیو ایم کا قیام
ایم کیو ایم کا قیام، جنرل ضیاع مردود کی حکومت کے 9 فروری 1984ء کے اس مارشل لاء حکم کا ردِعمل تھا جس کے مطابق ملک بھر میں طلباء تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ سیاسی عمل میں رکاوٹ ہمیشہ انتہا پسندی کی طرف مائل کرتی ہے جو ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ جماعت کے قیام کی صورت میں بھی نظر آیا۔
18 مارچ 1984ء کو ایم کیو ایم کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہوا لیکن اس سیاسی جماعت کا پروگرام 8 اگست 1986ء کو سامنے آیا جب "قائدِ تحریک" الطاف حسین نے نشتر پارک کراچی کے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مہاجروں کی طاقت کی مظاہرہ کیا اور مندرجہ ذیل تین مطالبات پیش کیے تھے:
- مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کیا جائے (یعنی مہاجروں کا ایک الگ صوبہ بنایا جائے)۔
- مہاجروں کو سندھ میں آبادی کے تناسب سے حقوق دیے جائیں اور کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے۔
- مہاجر دیگر قومیتوں یعنی سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچیوں سے برادرانہ ماحول میں رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر نا انصافی ہوئی تو اخوت کا یہ جذبہ ختم ہو جائے گا۔
اس مشہور جلسہ عام کے بعد ہی "سہراب گوٹھ" کا سانحہ ہوا جس سے مہاجروں اور پٹھانوں میں قتل و غارت کا ایک طویل دور شروع ہوا۔ اس دور کا کراچی اور حیدرآباد، خانہ جنگی کے مناظر پیش کر رہے تھے۔ الطاف حسین کو پہلی بار یکم نومبر 1986ءکو مختلف جرائم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف پہلا "آپریشن کلین اپ" بھی اسی سال کیا گیا تھا۔
مہاجروں کا احساسِ محرومی
ایم کیو ایم کا قیام، اس طویل کشمکش کا نتیجہ بھی تھا جو سندھ کے مہاجروں کا سیاسی معاملات میں دیرینہ "احساسِ محرومی" تھا جس کا آغاز قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جب بڑی تعداد میں اردو بولنے والے ہندوستانی مسلمان، پاکستان آنا شروع ہوئے۔
ابتداء میں انھیں خوش آمدید کہا گیا، حکومت اور بیوروکریسی میں اہم عہدے ملے، میڈیا پر قابض ہوئے، ہندوؤں کی متروکہ جائیدادوں میں حصہ ملا اور دنیا کے انتہائی مراعات یافتہ مہاجرین کہلائے لیکن اس کے بعد ایسے واقعات ہوئے جنھوں نے مہاجروں کو قومی دھارے سے الگ کرنا شروع کردیا۔ چند اہم ترین وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
- 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد سندھ کے پہلے قوم پرست وزیرِاعلیٰ محمد ایوب کھوڑو نے کراچی کی سندھ سے علیحدگی، بڑی تعداد میں ہندوستانی مہاجروں کی آمد اور مقامی افراد کی حق تلفی پر احتجاج کرنا شروع کیا جو اپنے ہی صوبے کے سب سے بڑے شہر میں ایک اقلیت بن گئے تھے۔ اس گستاخی پر موصوف کی چھٹی کروا دی گئی لیکن انھیں عوامی حمایت حاصل تھی، اسی لیے سیاسی طور پر دوبارہ بلکہ سہ بارہ آئے اور مخالفین کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ مہاجروں اور سندھیوں کے درمیان فاصلے یہیں سے بڑھنا شروع ہوگئے تھے۔
-
1948ء میں وفاقی حکومت نے اردو کو موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی اکلوتی قومی زبان قرار دیا جس کو اکثریتی صوبے بنگال نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس تنازعہ پر پچاس کی دھائی میں بنگالیوں اور اردو بولنے والوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی لیکن فتح بنگالیوں کی ہوئی جب 1954ء میں بنگالی کو دوسری قومی زبان قرار دے دیا گیا تھا۔
اس پر کراچی کے ایک معتبر اردو اخبار "جنگ" کے ایک انتہائی متعصب شاعر، رئیس امروہی نے اپنے روزانہ کے مشہورِ زمانہ قطعہ میں "اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔۔" سے مہاجروں میں نفرت کی آگ بھڑکا دی تھی۔
یہی نظم انھوں نے 1972ء کے لسانی فسادات میں بھی دھرائی جب ایک اور قوم پرست وزیرِاعلیٰ ممتاز علی بھٹو کی صوبائی حکومت نے سندھی کو صوبہ سندھ کی اکلوتی زبان قرار دیا تھا جو انتہائی نامناسب تھا۔ اس موقع پر اردو بولنے والوں کو بنگالی یاد آئے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے خونی فسادات سے مطالبات تسلیم کروائے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کا وؤٹ بینک نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی پرانی عداوت ہے۔ -
1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو صرف کراچی سے کامیابی ملی تھی۔ جب صدر ایوب کے بیٹے اور عمر ایوب کے والد، گوہر ایوب نے دانستہ طور پر مہاجروں کو مشتعل کرنے کے لیے 4 جنوری 1965ء کو کراچی میں فتح کا جشن منایا تو پہلی بار کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں کے درمیان خونی فسادات پھوٹ پڑے جن میں بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔
انھی دو گروپوں میں 1980 کی دھائی میں فسادات روزمرہ کا معمول بن گئے جب ملک بھر میں مارشل لاء اور لاقانونیت تھی اور ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام تھا جس میں انسانی جان و مال کی کوئی قیمت نہیں ہوتی تھی۔ - 1970ء میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں مہاجروں کی سوچ باقی ملک سے بالکل مختلف تھی جب پنجاب اور سندھ میں بھٹو کی پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ولی خان کو زبردست کامیابی ملی لیکن کراچی میں بھٹو مخالف مذہبی جماعتوں کی برتری تھی۔ 1977ء کے انتخابات میں بھی یہی صورتحال تھی اور بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی تحریک میں کراچی پیش پیش تھا۔
-
1973ء کے آئین میں سرکاری اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم سے بھی مہاجر برادری ناراض تھی جو بھٹو حکومت کے خلاف نفرت کی ایک بڑی وجہ بھی تھی۔ بنگلہ دیش سے بہاریوں کو پاکستان نہ لانے پر بھی مہاجروں کو اعتراض تھا۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کی نااہلی بھی پیشِ نظر تھی جس کے نتیجے میں مہاجر نوجوانوں نے سیاسی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا تھا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے قیام سے صرف ایک ہفتہ قبل یعنی 12 مارچ 1984ء کو جنرل ضیاع مردود نے بھی کوٹہ سسٹم کی میعاد میں مزید دس سال کا اضافہ کر دیا تھا جو جلتی پر تیل ثابت ہوا تھا۔
ایم کیو ایم کا سیاسی سفر
اپنے ابتدائی برسوں میں ایم کیو ایم نے مہاجر قومیت کے نام پر کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کی قیادت میں بڑے بڑے جلسے کیے اور 20 نومبر 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار، کراچی کے میئر بنے جبکہ الطاف حسین، دہشت گردی کے الزام میں جیل میں تھے لیکن ان کے حامیوں نے جیل توڑ کر اپنے قائد کو رہا کروا لیا تھا اور جنرل ضیاع مردود کا قانون بے بس اور مجبور تھا۔۔!
ایم کیو ایم کی اب تک کے عام انتخابات میں کارکردگی اور دیگر اہم واقعات حسبِ ذیل ہیں:
-
1988ء کے انتخابات میں عمران فاروق کی قیادت میں ایم کیو ایم نے اپنے پہلے قومی انتخابات میں 13 سیٹیں حاصل کیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائی لیکن ایک سال کے اندر ہی راستے جدا ہوگئے تھے۔
اس دوران، حیدرآباد میں مئی 1990ء میں "پکا قلعہ آپریشن" ہوا جس میں سندھ پولیس نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا تھا جس میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے۔ بے نظیر حکومت کی پہلی برطرفی کی بڑی وجہ بھی یہی بیان کی گئی تھی۔ -
1990ء کے انتخابات میں الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم، 15 سیٹیں جیت کر پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن کر سامنے آئی لیکن اس بار اس نے اسلامی جمہوری اتحاد کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو سپورٹ کیا جنھوں نے سندھ میں صوبائی حکومت بھی بنائی لیکن اسی دور میں ایک بار پھر ایم کیو ایم کی مبینہ دہشت گردی، قتل و غارت، بھتہ، اغواء اور دیگر غیرقانونی کاروائیوں کے خلاف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی قیادت میں پاک فوج کا بہت بڑا " آپریشن کلین اپ" ہوا جس میں ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے، بے شمار لاپتہ ہوئے۔
اس آپریشن کے دوران، ایم کیو ایم پر پاکستان مخالف ہونے اور علیحدگی پسند "ریاست جناح پور" کی منصوبہ بندی کا بے بنیاد الزام بھی لگا۔ الطاف حسین ملک سے فرار ہوئے اور لندن میں مستقل قیام کیا۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے آفاق احمد کی "ایم کیو ایم حقیقی" الگ ہوئی جو بظاہر خفیہ اداروں کی کارکردگی بتائی جاتی ہے۔ - 1993ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے بطورِ احتجاج حصہ نہیں لیا۔ اس دور میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت (1993/96) میں بھی وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں ایم کیو ایم کے خلاف ایک اور فوجی آپریشن ہوا۔
- 1997ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے 12 سیٹیں حاصل کیں۔ اس بار ایم کیو ایم نے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد کیا لیکن اس دور میں حکیم سعید کے قتل کے بعد صوبہ سندھ میں گورنر راج نافذ ہوا اور ایک بار پھر ایم کیو ایم کے خلاف ایک اور فوجی آپریشن کیا گیا۔
-
2002ء کے انتخابات میں فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کو 13 سیٹیں ملیں اور جنرل مشرف کی قائم کردہ قاف لیگ سے اتحاد کیا اور حکومت میں شامل رہے۔
اس دور میں ایم کیو ایم کراچی کی بلاشرکت غیرے مالک تھی۔ پہلی بار صدر بھی اپنا تھا اور کراچی کا میڈیا بھی قابو میں تھا۔ 12 مئی 2007ء کو جب چیف جسٹس افتخار چوہدری، کراچی گئے تو ایم کیو ایم نے ریاستی غنڈہ گردی کی نئی تاریخ رقم کی اور جسٹس صاحب کا قیام نہ صرف ناممکن بنا دیا بلکہ فسادات میں بے شمار بے گناہ لوگ بھی مار ڈالے۔ - 2008ء کے انتخابات میں بابر غوری کی قیادت میں ایم کیو ایم نے 25 سیٹیں جیتیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل رہی۔
-
2013ء کے عام انتخابات میں فیصل سبزواری کی قیادت میں 24 سیٹیں حاصل کیں اور اپوزیشن میں بیٹھے۔
اس دوران 22 اگست 2016ء کو الطاف حسین کی ایک ملک دشمن تقریر کے ردِعمل کے طور پر ایم کیو ایم کے کراچی ہیڈکوارٹر نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا اور اہم رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے بعد الطاف حسین سے علیحدگی پر مجبور کردیا گیا۔ اس طرح سے ایم کیو ایم، مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اصل ایم کیو ایم، الطاف حسین کی لندن والی ہی ہے جبکہ عام خیال یہی ہے کہ "پاک سرزمین پارٹی" اور" ایم کیو ایم پاکستان" کی تشکیل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اور فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور مصطفیٰ کمال وغیرہ مہروں کا کام کررہے ہیں ۔ - 2018ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین نے سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ایم کیو ایم کے دیگر دھڑوں نے الیکشن لڑا اور بری طرح سے ہارے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت بنی اور ایم کیو ایم کو مجبور کیا گیا کہ وہ تاحکمِ ثانی "پروجیکٹ عمران خان" کا حصہ بنیں۔
- 2024ء کے انتخابات میں خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں چھ سیٹیں ملیں اور ایک بار پھر خفیہ ہاتھوں نے ایم کیو ایم کو متحد کیا اور اس بار عمران خان مخالف اتحاد میں پناہ ملی۔
ایم کیو ایم کی پہچان
ایم کیو ایم کی باقی ملک میں پہچان، کراچی کی ایک دہشت گرد اور فاشسٹ سیاسی پارٹی کے طور پر ہوتی ہے۔ اس کے بانی، الطاف حسین، عمران خان کی طرح بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان سے متاثر تھے اور ایم کیو ایم کی تشکیل بھی عوامی لیگ کی ذیلی دہشت گرد تنظیم، مکتی باہنی کی طرز پر تھی جو طاقت اور غنڈہ گردی سے سیاسی مطالبات منواتی ہے یا بلیک میل کرتی ہے۔
ایم کیو ایم، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری، بلیک میلنگ، اغوا برائے تاوان اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں بھی ملوث ہوتی تھی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے "تھالی کے بینگن" کے طور پر جانی جاتی ہے جو خفیہ اشاروں پر ناچتی ہے۔
بدقسمتی سے ایم کیو ایم نے اپنی فاشسٹ سیاست کی بدولت اردو بولنے والوں کے سافٹ امیج کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ باقی ملک میں کراچی جیسے پرامن روشنیوں کے شہر میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کے ضمن میں یہ ایک انتہائی سنجیدہ "مذاق" بن گیا تھا کہ " کراچی، لوگ جہاز پر جاتے ہیں لیکن اخبار پر آتے ہیں۔۔!"
Muttahida Qaumi Movement
Sunday, 18 March 1984
Muttahida Qaumi Movement is a political party from Karachi, which was founded on March 18, 1984..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
23-11-1947: فاٹا (قبائلی علاقہ جات)
02-03-1981: پی آئی اے کا طیارہ اغواء ہوا
23-03-1956: سکندر مرزا