پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعتہ المبارک 11 دسمبر 2020
شیخ رشید احمد
شیخ رشید احمد
کو بھٹو نے "قومی بدمعاش"
کا خطاب دیا تھا
شیخ رشید احمد، پاکستانی سیاست کا ایک دلچسپ کردار رہے ہیں۔۔!
مقتدر حلقوں کے غیراعلانیہ ترجمان عرف "شیدا ٹلی"، آج کل اپنی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے زیرِ عتاب ہیں اور دوسری بار 2024ء کے متنازعہ انتخابات میں ہارے ہیں۔ اس سے قبل وہ آٹھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ٹانگہ پارٹی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں۔
"قومی بدمعاش"
شیخ رشید احمد نے سیاسی کیرئر کا آغاز 1969ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک میں کیا اور ابتداء میں بھٹو کے زبردست حامی تھے لیکن پھر ان سے شدید سیاسی اختلافات ہوئے۔
اپنی خودنوشت "لال حویلی سے اقوام متحدہ تک" میں انکشاف کرتے ہیں سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹوؒ، شیخ رشید احمد کو "قومی بدمعاش" کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ 1972ء میں بھٹو کے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک عوامی جلسہ کو درہم برہم کرنے ، انتشار پھیلانے اور گاڑیوں کو آگ لگانے کا کارنامہ شیخ رشید اور ان کے بیس پچیس ساتھیوں نے سر انجام دیا تھا۔ یہ کام انھوں نے کس کے اشارے پر کیا ہوگا؟ محتاجِ بیان نہیں۔۔!
1977ء کے انتخابات کے دوران شیخ رشید احمد کی گولی سے ایک شخص ہلاک ہوا ، گرفتار ہوئے لیکن جنرل ضیاع مردود کی قابض حکومت نےاس بدنامِ زمانہ "قومی بدمعاش" یا اپنے "قومی اثاثے" کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ ۔!
شیخ رشید احمد کا سیاسی کیرئر
شیخ رشید احمد نے باقاعدہ سیاسی کیرئر کا آغاز 1982ء میں اصغرخان کی تحریکِ استقلال میں شمولیت سے کیا تھا۔ 1984ء میں بلدیاتی کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ شیخ صاحب کی مکمل سیاسی سرگرمیوں کی مختصر مگر جامع فہرست مندرجہ ذیل ہے:
- 1985ء میں جنرل اختر عبدالرحمان کی سفارش پر جنرل ضیاالحق کی اجازت سے غیرجماعتی انتخابات میں شرکت کی اور پہلی بار راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے بعد اسمبلی میں ایک بار پھر مسلم لیگ کا احیاء ہوا اور شیخ صاحب اس سرکاری پارٹی میں شامل ہوگئے تھے، محمدخان جونیجو، وزیرِاعظم اور صدر مسلم لیگ بنے۔
- 1988ء کے عام انتخابات میں مقتدر حلقوں کے بنائے ہوئے بدنامِ زمانہ "اسلامی جمہوری اتحاد" کے امیدوار کے طور پر راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جنرل (ر) ٹکا خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
- 1990ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر پھر کامیاب ہوئے اور وزیرِ اعظم نواز شریف نے انھیں پہلی بار وزیرِ صنعت کا عہدہ تفویض کیا تھا۔
- 1993ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کی لیکن اس بار اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔
- 1997ء کے عام انتخابات میں نون لیگ کے ٹکٹ پر مسلسل پانچویں مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور اس بار وزیرِ ثقافت، وزیرِ سیاحت، اوورسیز، نوجوانوں اور افرادی قوت کے وزیر بھی مقرر ہوئے۔
- 2002ء کے انتخابات میں آزادانہ حیثیت سے اپنے حلقہ سے مسلسل چھٹی بار کامیاب ہوئے اور پھر ایک اور سرکاری پارٹی "قاف لیگ" میں شامل ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دورِ حکومت میں وزیرِ اطلاعات و نشریات اور وزیر ریلوے رہے۔
- 2008ء کے انتخابات میں پہلی بار شکست ہوئی۔ ضمنی انتخابات بھی ہارے۔ اس دور میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت، پاکستان عوامی مسلم لیگ بھی بنائی اور زرداری حکومت کے خلاف خفیہ قوتوں کے ترجمان کے طور پر تسلیم کیے گئے۔
-
2013ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر کامیاب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے اپنی الگ سیاسی پارٹی "پاکستان عوامی مسلم لیگ" قائم کی جس کے وہ خود ہی چیئرمین ہیں جسے طنزیہ "ٹانگہ پارٹی" بھی کہتے ہیں۔
2017ء میں پاناما پیپرز کیس میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور 342 میں سے صرف 33 ووٹ ہی حاصل کر سکے تھے۔
- 2018ء کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی، پاکستان عوامی مسلم لیگ کے واحد کامیاب ممبر اسمبلی تھے۔ عمران خان سے اتحاد کیا اور پہلے وزیر ریلوے اور پھر وزیرِ داخلہ رہے۔
- 2024ء کے انتخابات میں ایک بار پھر شکست سے دوچارہوئے اور غلط گھوڑے پر شرط لگانے کے جرم میں زیرِعتاب ہوئے اور اس وقت گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں۔
"گیٹ نمبر چار" کی پیداوار
شیخ رشید احمد کو "مقتدر قوتوں کا غیر اعلانیہ ترجمان" بھی کہا جاتا رہا اور ان کے لئے "پنڈی بوائے" کا ذومعنی جملہ بھی استعمال ہوا جو دانستہ مستقبل کی پالیسیوں کی پیش گوئی کر دیتا تھا۔ مخالفین، شیخ صاحب کو "شیدا ٹلی" بھی کہتے ہیں جبکہ وہ، دیگر سیاستدانوں کے بارے میں بڑے تحقیر آمیز انداز میں "گیٹ نمبر 4 کی پیداوار" کا جملہ استعمال کرتے رہے ہیں۔
"پنڈی بوائے" ہونے کا ایک فائدہ شیخ صاحب کو یہ بھی ہوا کہ 2018ء کے انتخابات میں ان کے مدمقابل نے ان پر سو کنال اراضی چھپانے کا الزام لگایا جو عدالت میں تو غلط ثابت ہوا لیکن بعد میں شیخ صاحب نے خود ہی اعتراف کر لیا کہ الزام درست تھا۔
شیخ رشید احمد ، 6 نومبر 1950ء کو راولپنڈی میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پولی ٹیکنیک کالج سے حاصل کی جہاں ایک طلباء یونین کے لیڈر رہے۔ 1973ء میں پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی جہاں سے 1982ء میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری بھی لی تھی۔ انھوں نے دو کتابیں "لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک" اور "فرزندِ پاکستان" لکھی ہیں۔ شیخ صاحب نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔
Sheikh Rasheed Ahmad
Friday, 11 December 2020
Sheikh Rasheed Ahmed Appointed As Interior Minister on December 11, 2020..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
15-08-1947: سردار عبدالرب نشتر
17-08-1988: غلام اسحاق خان
23-12-1997: جسٹس اجمل میاں