PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Friday, 17 May 2024, Day: 138, Week: 20

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

سوموار 10 جنوری 1966

معاہدہ تاشقند

صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو
معاہدہ تاشقند
صدر ایوب اور بھٹو کے درمیان
اختلافات کا باعث بنا

10 جنوری 1966ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے۔۔!

6 سے 23 ستمبر 1965ء تک پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلانیہ جنگ ہوئی جس میں پاکستان کا دعویٰ تھا کہ لاہور اور سیالکوٹ سیکٹروں پر بھارتی حملے پسپا کرکے پاکستان نے جنگ جیتی ہے۔

دوسری طرف بھارت کا دعویٰ تھا کہ جولائی 1965ء کے آخری ہفتے سے کشمیر میں ناکام مہم جوئی پر پاکستان کو شکست ہوئی ہے اور بھارت ، کشمیر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ متعدد عالمی لیڈروں کی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی تھی۔

معاہدہ تاشقند کیوں ؟

بظاہر جنگ میں کامیابیوں کے ان متضاد دعوؤں کے بعد مذاکرات کی گنجائش نہیں تھی لیکن پھر بھی معاہدہ تاشقند کرنا پڑا۔ سوال یہ تھا کہ اگر آپ نے جنگ جیت لی تھی تو پھر مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی۔۔؟

بھارت نے جنگ کے دوران کشمیر کے محاذ پر درہ حاجی پیر اور ٹیٹوال کے علاوہ سات سو مربع میل پاکستانی علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے صرف اڑھائی سو مربع میل بھارتی علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ پاکستان اپنے علاقے واپس لینے کے لیے معاہدہ تاشقند پر مجبور تھا۔ پاکستانی حکمرانوں نے حسب معمول اپنی قوم سے اتنے جھوٹ بولے تھے کہ انھیں کہیں پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی۔

یاد رہے کہ صدر جنرل ایوب خان کے پریس سیکرٹری الطاف گوہر نے معاہدہ تاشقند پر وزیرِ خارجہ والفقار علی بھٹوؒ کے کردار پر بڑی سخت تنقید کی ہے جبکہ صدر جنرل ایوب خان کے پرسنل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب ، بالکل الگ داستان بیان کرتے ہیں۔ ان کے برعکس بھارتی موقف کوئی اور ہی کہانی بیان کرتا ہے جو شاید معاہدہ تاشقند کی اصل کہانی بھی ہے۔ لال بہادر شاستری کے سوانح نگار سی پی سری واستوا نے اپنی کتاب "سیاست میں سچ: لال بہادر شاستری" میں جنرل ایوب اور شاستری کے مابین یہ مکالمہ نقل کیا ہے:

    جنرل ایوب: " کشمیر کے مسئلے میں کچھ ایسا کر دیجیے کہ میں بھی اپنے ملک میں منہ دکھانے کے قابل رہوں۔"
    شاستری: "صدر صاحب! میں بہت معافی چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔"

روس ہی میزبان کیوں ؟

پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے لیے روس کی میزبانی ایک سوالیہ نشان تھی کیونکہ روس ، روایتی طور پر بھارت کا اتحادی تھا اور پاکستان کے امریکی بلاک میں شامل ہونے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف تھا۔

پاکستان اور بھارت کے مابین روس کی میزبانی اس لیے ممکن ہوئی کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے اپنے روایتی حلیف اور اتحادی، پاکستان کو سفید جھنڈی دکھا دی تھی۔ قصور اصل میں پاکستان ہی کا تھا جس نے باہمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ سے ملنے والا مفت اسلحہ روس کے بجائے بھارت کے خلاف پھونک دیا تھا اور عین جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ صدر جنرل ایوب خان کو فوجی امداد کے حصول کے لیے چین کا خفیہ دورہ کرنا پڑا تھا۔

اس سے قبل 1962ء کی بھارت اور چین کی جنگ کے دوران مغربی ممالک نے دل کھول کر بھارت کی مدد کی تھی جس سے پاکستان اپنے اتحادیوں سے ناراض تھا۔ 1963ء میں چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ اسی رنجش کا نتیجہ تھا جس پر مغربی ممالک ناراض تھے۔ 1965ء کی جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس سے مطلوبہ نتائج نہ نکل سکے اور مجبوراً ثالثی کے لیے روس کی طرف دیکھنا پڑا۔

تاشقند روانگی سے قبل صدر ایوب خان نے امریکہ اور برطانیہ کے دورے کیے لیکن وہاں سردمہری کا سامنا ہوا۔ معاہدہ تاشقند ، جنرل ایوب خان کی مجبوری اور زوال کی علامت بن گیا تھا۔

معاہدہ تاشقند کا مکمل متن

  • "بھارت کے وزیر اعظم (لال بہادر شاستری) اور پاکستان کے صدر (جنرل ایوب خان) نے تاشقند (ازبکستان/روس) میں ملاقات کی اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات پر تبادلہ خیالات کیا۔ دونوں رہنماؤں نے افہام و تفہیم اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے پختہ عزم کا اظہار کیا اور ان مقاصد کے حصول کو بھارت اور پاکستان کے ساٹھ کروڑ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اہم سمجھا۔
  • بھارت اور پاکستان ، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اچھے ہمسایہ تعلقات قائم کرنے کے لئے تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے اور عہد کرتے ہیں کہ طاقت کی بجائے اپنے تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کریں گے۔ دونوں ممالک متفق ہیں کہ باہمی کشیدگی سے برصغیر پاک و ہند کے عوام کے مفادات کو خطرہ ہے اور اسی پس منظر میں جموں و کشمیر پر بھی بات ہوئی اور فریقین نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔
  • فریقین متفق ہیں کہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج ، 25 فروری 1966ء تک 5 اگست 1965ء سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آ جائیں گی اور دونوں ممالک، سیز فائر لائن پر جنگ بندی کی شرائط پر عمل کریں گے۔
  • بھارت اور پاکستان ، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر قائم رہیں گے۔
  • بھارت اور پاکستان ، ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کے پروپیگنڈے کی حوصلہ شکنی کریں گے اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں گے۔
  • بھارت اور پاکستان کے ہائی کمشنرز اپنے اپنے عہدوں پر واپس آجائیں گے، سفارتی مشن بحال کیے جائیں گے اور 1961ء کے ویانا کنونشن کی پابندی کی جائے گی۔
  • بھارت اور پاکستان کے مابین اقتصادی اور تجارتی تعلقات اور مواصلات کے علاوہ ثقافتی تبادلوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے پر اتفاق ہوا۔
  • بھارت اور پاکستان کا اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ جنگی قیدیوں کی وطن واپسی کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات دیں گے۔
  • بھارت اور پاکستان ، تارکین وطن/مہاجرین کے مسائل پر بات چیت جاری رکھیں گے اور لوگوں کے جبری انخلاء کو روکیں گے۔ نیز متنازعہ جائیدادوں اور اثاثوں کی واپسی کے حل کی کوشش بھی کی جائے گی۔
  • بھارت اور پاکستان ، باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے اعلیٰ سطح پر مسلسل رابطوں کے علاوہ مزید مثبت اقدامات کریں گے۔
  • بھارت اور پاکستان کے سربراہانِ مملکت ، روسی (اور ازبکستان) کی حکومت اور عوام کی مہمان نوازی اور گرمجوشی کے لیے مشکور ہیں۔ خاص طور پر (وزیرِاعظم کوسیجن) کا دوستانہ ، مدبرانہ اور تعمیری کردار قابلِ تعریف رہا جس کی بدولت باہمی اعتماد کی بحالی کا یہ معاہدہ ممکن ہوا۔"

ایوب بھٹو اختلافات کا آغاز

معاہدہ تاشقند کے بعد نہ صرف وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ اور صدر جنرل ایوب خان کے اختلافات کھل کر سامنے آئے بلکہ پاکستانی عوام اور حزب مخالف کے سیاست دانوں نے بھی سخت مخالفت کی تھی۔

یاد رہے کہ تاشقند مذاکرات کے لیے ضروری تفصیلات طے کرنے کے لیے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ نے 25 نومبر 1965ء کو ماسکو کا دورہ کیا تھا لیکن مذاکرات کے دوران ایوب اور بھٹو کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے۔ روایت ہے کہ ایک موقع پر جنرل ایوب خان نے طیش میں آکر سب کے سامنے بھٹو کو ڈانٹتے ہوئے اردو میں کہا تھا "اُلو کے پٹھے ، بکواس بند کرو۔۔!" یہیں سے دونوں کی راہیں جدا ہو گئی تھیں۔

13 جنوری 1966 سے مغربی پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ یہ تحریک جلد ہی مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی۔ لاہور میں پولیس نے مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں دو طالب علم ہلاک ہو گئے۔ 14 جنوری کو تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔

اسی دوران افواہوں کا بازار گرم ہو گیا کہ بھٹو کو جنرل ایوب خان کی کابینہ سے نکالا جارہا ہے۔ 29 جنوری 1966 کو ایوب خان نے اس بات کی تردید کی لیکن 17 جون 1966 کو حکومت نے یہ اعلان کر ہی دیا کہ بھٹو کو خرابی صحت کی بنا پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

بھارتی وزیراعظم شاشتری کا جنازہ





Tashkent agreement

Monday, 10 January 1966

Tashkent agreement was signed by India and Pakistan on January 10, 1966..


Tashkent agreement (video)

Credit: alibaba

Credit: British Pathé



پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.