پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعرات 8 اپریل 2010
18ویں آئینی ترمیم
8 اپریل 2010ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے 18ویں آئینی ترمیم منظور کی جس سے صدر کو اپنی صوابدید پر کسی منتخب وزیراعظم یا حکومت کو برخاست کرنے کا ناجائز حق ختم کر دیا گیا تھا۔۔!
اختیارات کی جنگ
پاکستان میں اختیارات کی جنگ روز اول سے جاری ہے۔ قائداعظمؒ کے پاس گورنر جنرل کے کلی اختیارات تھے جو برطانوی پارلیمنٹ نے تفویض کیے تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان اور آرمی چیف جنرل گریسی سے کشمیر کے موضوع پر ان کے اختلافات تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔
قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد بظاہر خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل بنایا گیا تھا لیکن اصل اختیارات وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی کے پاس چلے گئے تھے جو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بااختیار وزیراعظم تھے لیکن انتہائی نااہل شخص تھے۔ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں آئین سازی میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کی سزا پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
طاقت کا سرچشمہ کون؟
وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اختیارات سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔ اگلے سات برسوں میں سات ہی وزرائے اعظم بدلے گئے جن میں بیشتر گورنرجنرل کے اشارے پر برطرف ہوئے۔ ملک غلام محمد اور سکندرمرزا ، بیوروکریسی کے بڑے نام تھے جنھیں بندوق بردار آرمی چیف جنرل ایوب خان کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ گو اس دوران صرف بھٹو صاحب کے دور حکومت میں وقتی طور پر یہ تاثر غائب ہوا تھا لیکن حقیقت میں تب سے اب تک پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ آرمی چیف ہی رہے ہیں۔
آمروں کا آئیڈیل وزیراعظم
جنرل ضیاع مردود نے جب 5 جولائی 1977ء کو پاکستان پر قبضہ کیا تو اختیارات کی اس جنگ میں اپنا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا کہ "میں ایسا وزیر اعظم چاہتا ہوں جو میرے چھڑی ہلانے سے لائن حاضر ہو جائے۔۔" اس ملعون نے آٹھ سال بعد مارشل لاء اٹھانے سے قبل 5 جولائی 1977ء سے اپنے ناجائز دور اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے 1973ء کے معطل شدہ آئین کی بحالی کے لیے 9 نومبر 1985ء کو بدنام زمانہ 8ویں ترمیم منظور کروائی تھی۔ یہ ترمیم ایک ایسی اسمبلی سے منظور کروائی گئی تھی جس کے اراکین غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں اپنی ذاتی حیثیتوں میں منتخب ہوکر آئے تھے۔ انھیں مبینہ طور پر فی کس ایک لاکھ دس ہزار روپے کی رشوت دی گئی تھی جس سے 8ویں ترمیم کے حق میں وؤٹ ڈلوائے گئے تھے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ جس اسمبلی نے جنرل ضیاع مردود کو یہ ناجائز اختیار دیا تھا ، وہ خود ہی اس کا شکار بنی اور 29 مئی 1988ء کو کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کردی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے آمر مردود کے اس فیصلے کو غلط قرار دیا تھا لیکن تب تک وہ غاصب و جابر جہنم واصل ہو کر تاریخ کے گٹر میں گم ہوچکا تھا۔
بے ضمیری
جنرل ضیاع کی باقیات نے یہ کھیل جاری رکھا اور 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو درست قرار دیا تھا لیکن جب 18 اگست 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ایک بار پھر یہ اختیار استعمال کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے نہ صرف فیصلہ غیر آئینی قرار دیا بلکہ حکومت بھی بحال کر دی تھی۔ ایک جج ، جسٹس سجاد علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا تھا کہ ایک سندھی وزیر اعظم کو ریلیف نہیں ملا لیکن پنجابی وزیر اعظم کو ریلیف دیا جا ریا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ جب 5 نومبر 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو انھی جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نے اس فیصلے کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔
جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس
اپریل 1997ء میں 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے صوابدیدی اختیار کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس وقت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تھے جن کے پاس دوتہائی اکثریت تھی لیکن پھر بھی وہ اپنا اقتدار نہ بچا سکے تھے اور 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا تھا۔
پاکستان میں "جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس" کی مثال اس وقت صادق ثابت ہوئی جب ایک اور آمر جنرل پرویز مشرف کو سپریم کورٹ کی طرف سے آئین میں تبدیلی کے لامحدود اختیارات دے دیے گئے تھے جن کی آڑ میں 2003ء میں ایک بار پھر 17ویں ترمیم میں 8ویں ترمیم کے صدر کے اختیارات کو بحال کر دیا گیا تھا۔ اپریل 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں جب آصف علی زرداری صدر مملکت اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو مفاہمت کی پالیسی کے تحت پارلیمنٹ نے آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کے 1973ء کے آئین میں حاصل اختیارات بحال کر دیے گئے اور 58(2) بی سمیت آئینِ پاکستان سے دیگر آمرانہ غلاظتوں کو پاک و صاف کردیا گیا تھا۔
18th Constitution amendment
Thursday, 8 April 2010
Pakistan adopts the 18th amendment to the Constitution, stripping Presidents powers..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
26-06-2004: چوہدری شجاعت حسین
12-10-1999: مارشل لاء 1999ء
11-12-2020: شیخ رشید احمد